بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر کے زیورات کی زکوۃ کس پر ہے ؟


سوال

مہر کے زیورات کی زکوۃ کس پر ہے ؟ بیوی پر یا شوہر پر؟ بیوی کے پاس پیسے موجود نہ ہوں تو کیا کیا جائے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں عورت کو مہر کی صورت میں جو زیوارت ملے ہوں چوں کہ یہ زیورات عورت ہی کی ملکیت ہیں، اور ان کی زکوۃ عورت پر ہی لازم ہے، شوہر پر بیوی کے زیورات کی زکاۃ ادا کرنا لازم نہیں ہے، اور بیوی پر ان زیورات  کی زکوۃ لازم ہونے  میں یہ تفصیل ہے کہ اگر اس کی  ملکیت میں صرف سونے کے زیورات ہیں، اس کے علاوہ نقدی، چاندی، مالِ  تجارت نہیں ہے، تو اس سونے پر زکوۃ واجب ہونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا ہے، اگر اس کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ یا اس سے زیادہ سونا موجود ہے تو اس پر زکوۃ لازم ہے،اور اگر اس سے کم ہو تو زکوۃ لازم نہیں ہے۔اور اگر سونے کے ساتھ، کچھ چاندی یا  ضرورت سے زائد کچھ نقدی بھی موجود ہو تو پھر زکوۃ واجب ہونے کا نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت ہے۔

البتہ عام طور پر  چوں کہ عورتیں شوہر کے  گھر کے کام کاج سنبھالتی ہیں، کمانے کے لیے نہیں نکلتیں،  کمانے کے لیے مرد نکلتے ہیں، اور یہی تقاضائے فطرت بھی ہے، اس  لیے عموماً شوہر ہی بیوی کی طرف سے زکوٰۃ ادا کر  دیتے ہیں،لہذا اگر بیوی کے پاس رقم موجود نہ ہو اور شوہر اس کی جانب سے  اس کی اجازت سے زکوۃ ادا کرے تو یہ بھی درست ہے۔

تاہم  شوہر پر ایسا کرنا شرعاً  لازم نہیں، البتہ اخلاقاً ادا کردینا چاہئے تاکہ اس کو پیسہ کمانے کےلئے جانا یا قرض لینا نہ پڑے اور اگر شوہر بیوی کے زیورات کی زکوۃ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا اور عورت کے پاس نقد رقم بھی موجود نہ ہوتو ایسی صورت میں  عورت اسی زیور کا کچھ حصہ بیچ کر یا کسی سے قرض لے کر اپنے زیور کی زکوۃ ادا کردے۔

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"الزكوة واجبة علي الحر العاقل البالغ المسلم اذا بلغ نصابا ملكا تاما و حال عليه الحول."

(کتاب الزکوۃ، ج:2، ص:217، ط:ادارۃ القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا وكل في أداء الزكاة أجزأته النية عند الدفع إلى الوكيل فإن لم ينو عند التوكيل ونوى عند دفع الوكيل جاز كذا في الجوهرة النيرة وتعتبر نية الموكل في الزكاة دون الوكيل كذا في معراج الدراية فلو دفع الزكاة إلى رجل وأمره أن يدفع إلى الفقراء فدفع، ولم ينو عند الدفع جاز."

(كتاب الزكوة، الباب الاول فى تفسير الزكوة، ج:1، ص:171، ط:مكتبه رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولذا لو امر غيره بالدفع عنه جاز."

(کتاب الزکوۃ، ج:2، ص:270، ط:سعید، وکذا في البحر، ج:2، ص:212، ط:سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144311100876

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں