میری خالہ کو ان کے شوہر نے تحریری طور پر طلاق دی تھی اور طلاق نامہ پر دستخط بھی کیے تھے، طلاق نامہ سوال کے ساتھ منسلک ہے، جس میں تحریر ہے کہ : "اسے اس کے مطالبہ پر طلاقِ ثلاثہ (1) طلاق ( 2) طلاق (3) طلاق دے کر اپنی زوجیت سے علیحدہ کردیا ہے، اور آج سے میرے نفس پر حرام ہے، اور بعد عدت جہاں چاہے عقدِ ثانی کرلے، تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا"۔
تفصیلِ بالا کی روشنی میں اب ان کے نکاح کا کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ طلاق نامہ واقعۃ سائل کی خالہ کے شوہر نے تحریر کرایا تھا تو ان الفاظ سے سائل کی خالہ پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، اور وہ اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، رجوع جائز نہیں، اور تجدیدِ نکاح بھی حرام ہے، البتہ عدت کی تکمیل کے بعد مذکورہ خاتون کسی دوسرے شخص سے نکاح کرلیتی ہیں، اور وہ حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد انہیں طلاق دے دیتا ہے، یا اس کا انتقال ہوجاتا ہے، تو عدت مکمل ہونے کے بعد سائل کی خالہ کے لیے اپنے پہلے شوہر سے نکاح کرنا حلال ہوجائے گا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز، أما الإنزال فليس بشرط للإحلال۔
( كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ١ / ٤٧٣، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144304100485
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن