میری شادی کو 15سال ہوگئے ہیں، میری ہر ممکن کوشش کے باوجود میرے سسرال والوں کا رویہ اچھا نہیں رہا، اور بعض اوقات ہتک آمیز ہے۔ بیوی کو ہر وقت ان سے رابطہ اور آنا جانا چاہئے، میرے سمجھانے پر وہ چیخ چیخ کر گالیاں دیتی ہے۔ ان حالات میں میں بیوی کو کتنے دن بعد اور کتنے ٹائم کے لئے سسرال بھیجنے کا پابند ہوں؟
واضح رہے کہ شریعتِ مطہر ہ میں بیوی پر شوہر کی اطاعت کو واجب قرار دیا گیا ہے ،بیوی کا شوہر کی نافرمانی کرنا ، ان کے ساتھ بدتمیزی یا بدزبانی سے پیش آنا یا انہیں گالی دینا ناجائز اور باعثِ گناہ عمل ہے۔ اور اسی طرح سسرال والوں کو چاہیے کہ اس مقدس رشتے کی خاطر داماد کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئے۔
سائل کو چاہیے کہ بیوی اور ان کے میکے والوں سے حسن سلوک کرے، اور وقتاً فوقتاً اپنے خاندان اور عرف کے مطابق اپنی بیوی کو والدین اور دیگر محارم، عزیز و اقارب سے ملاقات کرنے کی اجازت دے، ورنہ شریعت کی جانب سے عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے والدین سے ملاقات کی خاطر کچھ وقت کےلیے (یا جتنا وقت مناسب ہو اس وقت تک کےلیے)ہفتہ میں ایک دفعہ اور دیگر محرم رشتہ داروں سے سال میں ایک دفعہ ملاقات کے لیے جاسکتی ہے، البتہ رات ہونے سے پہلے شوہر کے گھر واپس آنا ضروری ہے، شوہر کی اجازت کے بغیر والدین یا کسی بھی رشتےدار کے ہاں رات گزارنا شرعًا جائز نہیں ہے۔
یاد رہے کہ میاں بیوی کا رشتہ قانون سے زیادہ حسنِ اخلاق سے چلتا ہے اور اسی سے ہی یہ رشتہ پائیدار رہتاہے، اس لیے مناسب ہے کہ میاں بیوی دونوں باہمی رضامندی سے سسرال والوں سے ملاقات کےلیے کوئی دن اور وقت طے کرلیں۔
حدیث شریف میں ہے :
"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمرًا أحدًا أن يسجد لأحدٍ لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها». رواه الترمذي".
(مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 281، ط: قديمي كراتشي)
ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:"اگر میں کسی کو(خداوندتعالٰی کے علاوہ)کسی (اور)کے سامنے سجدہ کرنے کاحکم کرتا تو بیوی کو خاوند کے سامنے سجدہ کرنےکاحکم کرتا"۔
البحر الرائق میں ہے:
"ینبغي أن یؤذن لھا في زیارتھما الحین بعد الحین علی قدر متعارف..... وقد استفيد مما ذكرناه أن لها الخروج إلى زيارة الأبوين والمحارم فعلى الصحيح المفتى به تخرج للوالدين في كل جمعة بإذنه وبغير إذنه ولزيارة المحارم في كل سنة مرة بإذنه وبغير إذنه، وأما الخروج للأهل زائدا على ذلك فلها ذلك بإذنه."
(كتاب النكاح، باب النفقة، ج:4، ص:212، ط:دار الكتاب الإسلامي القاهرة مصر)
فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144511102736
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن