بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو میسج میں "آپ کو طلاق" لکھ کر بھیجنے کی صورت میں طلاق کا حکم


سوال

آیک آدمی نے بیوی کو میسج پر طلاق لکھ کر بھیج دی کہ : "آپ کو طلاق" اس سے  طلاق واقع ہو ئی یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر واقعتًا  شوہر    نے اپنی بیوی کو میسج پر یہ لکھا کہ : " آپ کو طلاق"  تو اس سے اس کی بیوی پر طلاق واقع ہوچکی ہے، اب اگر مذکورہ الفاظ صرف ایک بار تحریر کیے تھے، تو اس سے ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگی، عدت کے دوران شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہوگا، جس کا افضل طریقہ یہ ہے کہ شوہر دو گواہوں کی موجودگی میں اپنی مطلقہ بیوی سے کہہ  دے کہ" میں نے تم سے رجوع کرلیا" یا وہ اپنی مطلقہ بیوی سے عدت کے دوران جسمانی  تعلق قائم کرلے۔

اگر مذکورہ الفاظ دو بار تحریر  کیے ہوں تو دو طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،  تب بھی عدت کے دوران شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہوگا، بہر صورت عدت کے دوران رجوع نہ کرنے کی صورت میں عدت مکمل ہوتے  ہی نکاح ختم ہوجائے گا، اور رجوع کا حق ختم ہوجائے گا، تاہم باہمی رضامندی سے نئے مہر کے تعین کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنے  کی اجازت ہوگا، اور پہلی صورت میں  آئندہ  کے  لیے  شوہر کو صرف دو  طلاق کا حق حاصل ہوگا، اور دوسری صورت میں  صرف ایک طلاق کا حق حاصل ہوگا۔

البتہ اگر مذکورہ الفاظ تین مرتبہ تحریر کیے ہوں، تو اس صورت میں مذکورہ  خاتون پر تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی، اور وہ اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی،نہ  رجوع جائز ہوگا، اور  نہ ہی دوبارہ نکاح جائز ہوگا۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن حماد قال: إذا کتب الرجل إلی امرأته -إلی- أمابعد! فأنت طالق فهي طالق، و قال ابن شبرمة: هي طالق."

( کتاب الطلاق، باب في الرجل یکتب طلاق امرأته بیده، ٩ / ٥٦٢، رقم: ١٨٣٠٤، ط:  مؤسسة علوم القرآن )

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام  میں ہے:

"(المادة ٦٩) : الكتاب كالخطاب ... و الحاصل: أنّ كلّ كتاب يحرر على الوجه المتعارف من الناس حجة على كاتبه كالنطق باللسان."

( المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ١ / ٦٩، المادة: ٦٩، ط: دار الجيل)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و إذا طلق الرجل امرأته تطليقةً رجعيةً أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض، كذا في الهداية."

( كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة ١ / ٤٧٠، ط: دار الفكر)

المبسوط للسرخسي میں ہے:

"فإذا انقضت العدة قبل الرجعة فقد بطل حق الرجعة و بانت المرأة منه، و هو خاطب من الخطاب يتزوجها برضاها إن اتفقا على ذلك."

( كتاب الطلاق، باب الرجعة، ٦ / ١٩، ط: دار المعرفة - بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية. و لا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولًا بها أو غير مدخول بها، كذا في فتح القدير. و يشترط أن يكون الإيلاج موجبًا للغسل و هو التقاء الختانين، هكذا في العيني شرح الكنز.أما الإنزال فليس بشرط للإحلال."

( كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ١ / ٤٧٣، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102122

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں