بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسری عورت کی وجہ سے بیوی کو چھوڑنا


سوال

ایک عورت کو کسی دوسری عورت کے پسند آجانے کی وجہ سے چھوڑنا جائز ہے؟

جواب

اگر سوال سے مقصود کسی شخص کا اپنی بیوی کے علاوہ کسی عورت کو پسند کرنے کی وجہ سے بیوی کو چھوڑنامراد ہے ، تو اس کا حکم یہ ہے کہ :محض کسی دوسری عورت کو پسند کرنے کی وجہ سے اپنی بیوی کو چھوڑنا، طلاق دیناناجائز اور ظلم ہے اس لیے کہ نکاح کو دینی اور دنیوی مصلحتوں کے لیے مشروع کیا گیا ہے اور بلاوجہ طلاق دینے سے وہ مصلحتیں فوت ہوجاتی ہیں، نیز اس سے لڑکی کو، اس کے گھر والوں کو اور اس کی اولاد کو ایذا ہوگی۔لہذا ایسے شوہر کو چاہیےکہ وہ اپنی بیوی کو صرف پسند یا ناپسند کی وجہ سے  طلاق نہ دے،  دوسری جگہ نکاح کرکے دونوں کے حقوق ادا کرسکتا ہے تو شرعی حکم کے مطابق دونوں کو  رکھے۔

قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں بیوی کے حقوق  کی بہت تاکیدوارد ہوئی ہے ،چنانچہ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

" { فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا}" [النساء: 34]

ترجمہ :" پھر اگر وہ تمھاری فرماں برداری کریں تو ان پر (زیادتی کا) کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بے شک اللہ ہمیشہ سے بہت بلند، بہت بڑا ہے۔"

"﴿ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا﴾"[النساء: 19]

ترجمہ:" اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی  کے  ساتھ گزران کرو،  اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو  ممکن ہے  کہ تم ایک شے  کو ناپسند کرو  اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر  کوئی  بڑی منفعت رکھ دے۔"(ازبیان القرآن)

حدیث مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لايفرك مؤمن مؤمنةً إن كره منها خلقاً رضي منها آخر» . رواه مسلم".

(مشکاۃ المصابیح، 2/280،  باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)

ترجمہ:" رسول کریم ﷺ نے فرمایا: کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے بغض نہ رکھے،  اگر  اس کی نظر میں اس عورت کی کوئی  خصلت وعادت ناپسندیدہ ہوگی  تو  کوئی دوسری خصلت وعادت پسندیدہ بھی ہوگی۔"

(مظاہر حق، 3/354، ط: دارالاشاعت)

فتاوی شامی میں ہے :

"وأما الطلاق فإن الأصل فيه الحظر، بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه، وهو معنى قولهم الأصل فيه الحظر والإباحة للحاجة إلى الخلاص، فإذا كان بلا سبب أصلا لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص بل يكون حمقا وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة كما قيل، بل هي أعم كما اختاره في الفتح، فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعا يبقى على أصله من الحظر، ولهذا قال تعالى {فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا} [النساء: 34] أي لا تطلبوا الفراق، وعليه حديث «أبغض الحلال إلى الله الطلاق» قال في الفتح: ويحمل لفظ المباح على ما أبيح في بعض الأوقات أعني أوقات تحقق الحاجة المبيحة اهـ وإذا وجدت الحاجة المذكورة أبيح وعليها يحمل ما وقع منه صلى الله عليه وسلم ومن أصحابه وغيرهم من الأئمة صونا لهم عن العبث والإيذاء بلا سبب، فقوله في البحر إن الحق إباحته لغير حاجة طلبا للخلاص منها، إن أراد بالخلاص منها الخلاص بلا سبب كما هو المتبادر منه فهو ممنوع لمخالفته لقولهم إن إباحته للحاجة إلى الخلاص، فلم يبيحوه إلا عند الحاجة إليه لا عند مجرد إرادة الخلاص وإن أراد الخلاص عند الحاجة إليه فهو المطلوب، وقوله في البحر أيضا إن ما صححه في الفتح اختيار للقول الضعيف وليس المذهب عن علمائنا فيه نظر لأن الضعيف هو عدم إباحته إلا لكبر أو ريبة."

(ج:3،ص:228،ط: سعید)

اور اگر سوال سے مقصود اس کے علاوہ ہے تو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ سوال کرلیں۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411101368

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں