بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو تین طلاق دے دیں


سوال

میں اور میری بیوی میرے سسرال مطلب میری بیوی کے ماں باپ کے گھر گئے ہوئے  تھے، میری بیوی کے پاس موبائل تھا جو کہ اس نے مجھے بتایا کہ اس کے بھائی نے دیا  ہے جب کہ وہ موبائل اس کے بھائی نے نہیں دیا تھا، اس کی تصدیق بھی ہوگئی،  جب ہم گھر واپس آنے لگے تو  میں نے اپنی بیوی سے کہا موبائل کو ادھر چھوڑ کر جاؤ تو میری بیوی نے جواب دیا: ہاں ہاں تم جاؤ!  جس پہ مجھے تکلیف بھی ہوئی تو میں نے اس سے کہا:  وہ بیوی ہی کیا جو خاوند کی بات ہی نہ مانے تو میری بیوی نے چڑاتے ہوئے  کہا:  ہاں ہاں جاؤ تم!  اس کی بہن بھائی ماں اور باپ بھی موجود تھے، کسی نے اسے ایسی بات کرنے سے نہیں روکا، میں اس کی یہ باتیں سن کہ طیش میں آگیا اور اسے تین طلاق دی ، دوسری طلاق  کے بعد میں تیسری طلاق دینا نہیں چاہتا تھا، لیکن غیر ارادی تیسری طلاق بھی دے دی، اس سے پہلے وہ مجھ سے بار بار طلاق کا مطالبہ کر چکی تھی، میں اسے کسی بھی بات سے منع  کرتا تو جواب دیتی میری مرضی،  میں جو کروں،  تنگ ہو تو طلاق دے دو۔

میں نے کبھی طلاق نہیں دی تھی، میں نے عدت کے دوران اپنی بیوی سے چار بار فون پہ بات کی اور کہا کہ میں تم سے رجوع کرتا ہوں تم بھی مان جاؤ اور رجوع کر لو، لیکن اس نے پہلے تین بار کہا:  سوچنے دو،  جب آخری بار بات کی تو کہتی  ہے کہ میں رجوع نہیں کرنا چاہتی۔

اس کے علاوہ میں نے اپنی بھتیجی، اس کی بھابی اور اس کے بھائی سے بھی علیحدہ علیحدہ کہلوایا کہ رجوع کر لو، لیکن وہ نہیں مانی،  اب عدت گزر چکی ہے اس نے عدت بھی نہیں کی تھی، آپ بتا دیں غیر ارادی بھی طلاق شمار ہوگی یا کوئی گنجائش باقی ہے؟

میں نے سارا معاملہ حرف بہ حرف لکھا ہے اس وقت جو ہوا،  میں اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہوں،  اگر کوئی گنجائش ہو تو بتا دیں!

جواب

واضح رہے کہ طلاق کے صریح الفاظ  سے طلاق واقع ہونے کے لیے طلاق دینے کی نیت کرنا ضروری نہیں،  لہذا صورتِ  مسئولہ میں   آپ نے طلاق کی نسبت بیوی کی طرف کرتے ہوئے اسے تین طلاقیں  دی تھیں تو تینوں طلاق واقع ہوچکی ہیں، اور مذکورہ خاتون آپ پر  حرمتِ  مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، جس کے نتیجہ میں، آپ کے  لیے عدت میں رجوع کرنا  جائز نہیں تھا، اور  نہ ہی اب تجدیدِ  نکاح  کی گنجائش ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية. و لا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولًا بها أو غير مدخول بها، كذا في فتح القدير. و يشترط أن يكون الإيلاج موجبًا للغسل و هو التقاء الختانين، هكذا في العيني شرح الكنز. أما الإنزال فليس بشرط للإحلال."

( كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ١ / ٤٧٣، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200290

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں