میں ایک مدرسہ کا استاد ہوں، میری تنخواہ دس ہزار روپے ہے، میری بیوی کے پاس کم از کم دو تولہ سونا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے پاس اضافی برتن بھی ہیں، ویسے تو سونا نصاب کو نہیں پہنچتا لیکن اگر برتن ملا لیے جائیں تو چاندی کے نصاب کو پہنچ جاتا ہے، اب میری بیوی پر قربانی واجب ہے، لیکن اس کا آمدنی کا ذریعہ کچھ نہیں اور وہ مجھے تنگ کر رہی ہے، تم اپنی تنخواہ سے قربانی کرو، ورنہ میرے پاس کچھ بھی نہیں کہ مہربانی کرو اور میں نے سونا فروخت کرنے کو کہا، لیکن وہ اس بات پر رضامند نہیں ہوئی اور اس نے صرف اس لیے کہہ دیا کہ میں قربانی نہیں کروں گی، اگر میں اس کی طرف سے قربانی کروں گا تو میری پوری تنخواہ قربانی میں چلی جائے گی، آپ سے گزارش ہے کہ کوئی تاویل کا راستہ بتا دیجیے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر اضافی برتن سال میں ایک مرتبہ بھی کسی تقریب وغیرہ میں استعمال ہوجاتے ہیں، تو یہ برتن استعمال میں ہونے کی وجہ سے نصاب میں شامل نہیں ہوں گے، اور قربانی واجب نہیں ہوگی۔
البتہ اگر سال بھر ایک مرتبہ بھی استعمال نہ ہوتے ہوں، تو یہ ضرورت و استعمال سے زائد ہیں، اس صورت میں آپ کی بیوی پر قربانی واجب ہوگی، نقدی نہ ہونے کی صورت میں کسی سے قرض لے کر ایک حصہ کرلیا جائے، واجب کی ادائیگی کے لیے مکمل جانور کرنا، یا مہنگا حصہ کرنا کرنا ضروری نہیں، نیز آپ پر اپنی بیوی کی طرف سے قربانی کرنا واجب نہیں، لہذا اگر آپ کے پاس وسعت نہیں تو ایسی صورت میں بیوی کی فرمائش پوری کرنا بھی لازم نہیں۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144112200224
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن