مہر کی رقم بیوی اپنی اجازت سے شوہر کو کاروبار کےلیے دے سکتی ہے؟
بیوی کا اپنی مرضی سے اپنے مہر کی رقم کاروبار کےلیے اپنے شوہر کو دینا جائز ہے اور شوہر کا اس رقم سے کاروبار کرنا بھی درست ہے، البتہ رقم دیتے وقت ہی اس بات کی صراحت کردینا لازم ہے کہ بیوی نے یہ رقم تبرع واحسان کے طور پردی ہے، یا قرض کے طور پر ، یا کاروبار میں شراکت کے طور پر ۔
اگر تبرعاًمہر کی رقم شوہر کو دے دی ، یعنی ہبہ کردی تو اس صورت میں بعد میں بیوی دوبارہ مطالبہ نہیں کرسکتی۔
قرض دینے کی صورت میں جتنی رقم دی تھی اتنی ہی رقم واپس لینے کی حق دار ہوگی۔
اور کاروبار میں شراکت کے لیے دے رہی ہو تو حاصل شدہ نفع کے فیصد کے اعتبار سے نفع کا تعین بھی لازم ہوگا۔ سرمائے کا فیصد یا متعینہ نفع طے کرنا درست نہیں ہوگا۔
تفسير ابن كثير / دار طيبة - (2 / 213):
" أن الرجل يجب عليه دفع الصداق إلى المرأة حَتمًا، وأن يكون طيب النفس بذلك، كما يمنح المنيحة ويعطي النحلة طيبًا بها، كذلك يجب أن يعطي المرأة صداقها طيبا بذلك، فإن طابت هي له به بعد تسميته أو عن شيء منه فليأكله حلالا طيبًا؛ ولهذا قال [تعالى] (4) { فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَرِيئًا }"۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 113):
’’(وصح حطها) لكله أو بعضه (عنه) قبل أو لا، ويرتد بالرد، كما في البحر‘‘.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6 / 59):
"(ومنها) : أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرة، أو مائة، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلايتحقق الشركة في الربح".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212202223
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن