بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا اپنی سوکن کو طلاق دینے کا مطالبہ کرنا


سوال

 میں شادی شدہ ہوں، میری بیوی بہت اچھی ہے اور ایک بیٹی بھی ہے۔ میں نے ایک طلاق یافتہ عورت سے صرف اس لیے نکاح کیا کہ اس کی زندگی میں دین نہیں تھا تو اس نے ایک شیعہ سے شادی کر لی،  پھر دین کی طرف آئی تو کوشش کی اُس کے خاوند کا عقیدہ ٹھیک ہو جائے،  مگر وہ اماں عائشہ اور باقی صحابہ کرام کی گستاخی کرتا تھا؛  اس لیے اس نے طلاق لے لی، اُس کے تین بچے ہیں اور ماشاءاللہ دین دار ہیں۔

اب میری پہلی بیوی ضد کر رہی کہ اُسے طلاق دو،  ورنہ  میں طلاق لے لوں گی۔

میرے دوسرے نکاح میں دوسری بیوی کے خاندان والے شامل تھے مگر میں نے پہلی کو نہیں بتایا تھا۔

میرا سوال یہ ہے کہ میں اب کیا کروں؟میں دونوں کو انصاف کے ساتھ رکھنا چاہتا ہوں۔ مگر میری پہلی بیوی مجھ پر یقین نہیں کر رہی کہ میں نے نکاح خالص اللہ کی رضا کے لیے کیا۔ میری دوسری بیوی کی عمر بھی 42 سال ہے اور میں 32 سال کا ہوں اور پہلی بیوی 26 سال کی۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  چوں کہ نکاح ہوچکا ہے، لہذا اب پہلی بیوی کی جانب سے اپنی سوکن کو طلاق دینے کا شوہر سے مطالبہ کرنا  از روئے حدیث جائز نہیں، البتہ سائل پر دونوں بیویوں کے درمیان  مکمل برابری کرنا لازم ہوگا، برابری نہ کرنے پر احادیث میں سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں۔

تفصیل کے  لیے دیکھیے:

ایک سے زائد بیویوں کے درمیان برابری ضروری ہے

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"3145 - وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لاتسأل المرأة طلاق أختها لتستفرغ صحفتها ولتنكح فإن لها ما قدر لها» . متفق عليه.

3145 - (وعنه) أي: عن أبي هريرة (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لاتسأل المرأة) بالجزم والرفع (طلاق أختها) أي: ضرتها يعني أختها في الدين أو لكونهما من بنات آدم وحواء وسماها أختا لتميل إليها وتحن عليها واستقباحا لخصلة النهي عنها لما ورد من قوله عليه الصلاة والسلام: " «لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه» " ومفهومه أنه يكره لأخيه ما يكره لنفسه يعني لا تسأل المخطوبة الخاطب أن يطلق زوجته لتكون منفردة بالحظ منه وهذا معنى قوله (لتستفرغ صحفتها) أي: لتجعل قصعة أختها فارغة عما فيها من الطعام وهذا مثل ضربه لحيازة الضرة حق صاحبتها لنفسها، وقال الطيبي أي لتفوز بحظها (ولتنكح) بصيغة المعلوم منصوب بالعطف على لتستفرغ أي ولتنكح زوجها ليكون جميع مال ذلك الرجل للطالبة كذا قيل، والمعنى لتنكح هذه المرأة الزوج خاصة وإسناد النكاح إلى المرأة شائع قال تعالى {حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] أي لتنكح طالبة الطلاق زوج تلك المطلقة وإن كانت المطالبة والمطلوبة تحت رجل يحتمل أن يعود ضميره إلى المطلوبة يعني ولتنكح ضرتها زوجا آخر فلا تشترك معها فيه، أو مجزوم بالعطف على تسأل أي ولتنكح زوجا غيره وقيل: بصيغة المجهول أي لتجعل منكوحة له، وقال ابن الملك: في شرحه للمشارق: روي ولتنكح بصيغة الأمر المعلوم أو المجهول عطفا على قوله " لا تسأل " يعني لتثبت المرأة المنكوحة على نكاحها الكائن على الضرة قانعة بما يحصل لها فيه أو معناه لتنكح تلك المرأة الغير المنكوحة زوجا غير زوج أختها ولتترك ذلك الزوج أو معناه لتنكح تلك المخطوبة زوج أختها ولتكن ضرة عليها إذا كانت صالحة للجمع معها من غير أن تسأل طلاق أختها (فإن لها ما قدر لها) أي: لن تعدو بذلك ما قسم لها ولن تستزيد به شيئا وفي المصابيح فإن مالها ما قدر لها قال ابن الملك: ما في ما لها موصولة والجملة الظرفية صلتها ويحتمل أن يكون مال اسم جنس مضافا إلى الهاء وفي بعض النسخ فإنما متصل فتكون ما كافة. (متفق عليه)."

(كتاب النكاح، باب إعلان النكاح والخطبة والشرط، 5 / 2067، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں