بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا اپنے شوہر سے زمین میں سے حصہ مانگنا


سوال

 میری بیوی کچھ عرصہ قبل سات بچوں کو  لے  کر چلی گئی، جس جگہ  میرا بیٹا کام  کرتا تھا وہاں رہائش اختیار کرلی،   میرے بہت اصرار کے باوجود وہ واپس آنے پر راضی نہیں ہوئی ، جس کے بعد میں نے دوسری شادی کر لی، اب میری بیوی اپنے بچوں کے ہمراہ  مجھ سے جائیداد میں سے حصہ مانگ رہی ہے، جبکہ میں نے جرگہ کے  فیصلہ کے مطابق اس کو اپنی زمین  میں سے کچھ حصہ  گھر بنانے کے لئے دیا  تھا،  میری بیوی اس  زمین  کو  فروخت  کر کے کہیں اور گھر بنانا چاہ رہی ہے،  آیا  اس کو یہ اختیار حاصل ہے یا نہیں؟نیزمیری بیوی ہماری اولاد کے نام پر زمین میں سے اور حصہ مانگ رہی ہے، آیا اس کو یہ حق حاصل ہے؟

جواب

1۔ بصدقِ واقعہ صورت مسئولہ میں سائل نے اپنی پہلی بیوی کو اپنی زمین میں سے جو حصہ دیا تھا، اس حصہ کی مالکن اس کی پہلی بیوی ہے، لہذا وہ اگر اپنی زمین فروخت کرکے کسی اور جگہ اپنا گھر بنانا چاہتی ہے، تو شرعا اسے اس بات کا حق حاصل ہوگا، سائل مذکورہ زمین فروخت کرنے سے اپنی بیوی کو روکنے کا شرعا حق نہیں رکھتا، البتہ مذکورہ زمین اگر سائل کی زمین کے ساتھ ہو تو سائل کو اس پر حق شفعہ  حاصل ہوگا، یعنی سائل قیمتاً مذکورہ زمین اپنی بیوی سے لے سکتا ہے۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"المادة (١١٩٢) - (كل يتصرف في ملكه كيفما شاء. لكن إذا تعلق حق الغير به فيمنع المالك من تصرفه على وجه الاستقلال. مثلًا: الأبنية التي فوقانيها ملك لأحد وتحتانيها لآخر فبما أن لصاحب الفوقاني حق القرار في التحتاني ولصاحب التحتاني حق السقف في الفوقاني أي حق التستر والتحفظ من الشمس والمطر فليس لأحدهما أن يعمل عملًا مضرًّا بالآخر بدون إذنه ولا أن يهدم بناء نفسه).

كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير."

( الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالحيطان والجيران، الفصل الأول في بيان بعض القواعد المتعلقة بأحكام الأملاك٣ / ٢٠١، ط: دار الجيل)

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

"قال أصحابنا رحمهم الله: الشفعة لا تجب في منقولات مقصودة، وإنما تجب تبعا للعقار على ما يأتي بيانه في آخر هذا الفصل، وإنما تجب مقصودا في العقارات كالدور والكرم وغيرها من الأراضي مما يحتمل القسمة كالحمام والرحى والبئر وغير ذلك، وإنما تجب في الأراضي التي يملك رقابها حتى أن الأراضي التي حازها الإمام لبيت المال ويدفع إلى الناس مزارعة فصار لهم فيها كراء دار كالبناء والأشجار والكنس إذا كنسوها بتراب نقلوها من موضع يملكوها، فإن بيعت هذه الأراضي فبيعها باطل، وإن بيع الكر دار وكان معلوما يجوز بيعها، ولكن لا شفعة، وكذا الأراضي ... ؟ إذا كانت الأكرة يزرعونها فبيعها لا يجوز، وبيع الكراء إذا كان معلوما يجوز، ولكن لا شفعة فيها.

في «أدب القاضي» : للخصاف في باب الشفعة: وإنما يجب بحق الملك حتى لو بيعت دار بجنب دار الوقف، فلا شفعة للوقف، ولا يأخذها المتولي.

في «فتاوى أبي الليث» رحمه الله: وكذلك إذا كانت هذه الدار وقفا على رجل لا يكون للموقوف عليه حق الشفعة بسبب هذه الدار لما قلنا.

في «فتاوى (أهل) سمرقند» : وإنما يجب إذا ملك العقار بعوض هو عين مال إذا ملك بغير عوض أصلا بأن ملك بالهبة بغير عوض أو بالإرث أو بالصدقة فلا شفعة.

وكذلك إذا ملك بعوض هو ليس بعين مال، كما إذا جعل الدار مهرا في النكاح أو أجرة في باب الإجارة أو بدل خلع أو صلح عن دم العمد فلا شفعة؛ وهذا لأن حق الشفعة بخلاف القياس؛ لأن في الأخذ بالشفعة تملك مال الغير بغير رضاه عرف بالنص في البيع، والملك بالبيع ثبت بعوض هو عين مال، فما وقع الملك فيه بغير عوض أو بعوض ليس هو عين مال يبقى على أصل القياس."

( كتاب الشفعة، الفصل الأول: فيما تجب فيه الشفعة وما لا تجب، ٧ / ٢٥١، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

2۔ سائل جب تک حیات ہے، اس کی زمین پر اسی کا حق ہے، اس کی بیوی اور  بچوں  میں سے کسی کو حصہ مانگنے کا شرعا حق نہیں، البتہ  اس کی موت کے بعد اس کا متروکہ اموال(  خواہ منقولہ ہو یا غیر منقولہ ) حصص شرعیہ کے تناسب سے سائل کے شرعی ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا، لہذا سائل کی پہلی بیوی کا مطالبہ شرعا درست نہیں۔

شرح مشكل الآثار للطحاوی میں ہے:

٢٨٢٣- وكما حدثنا الربيع بن سليمان بن داود قال: حدثنا أصبغ بن الفرج قال: حدثنا حاتم بن إسماعيل قال: حدثنا عبد الملك بن الحسن، عن عبد الرحمن بن أبي سعيد، عن عمارة بن حارثة، عن عمرو بن يثربي قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: " لا يحل لامرئ من مال أخيه شيء إلا بطيب نفس منه " قال: قلت يا رسول الله , إن لقيت غنم ابن عمي آخذ منها شيئا؟ فقال: " إن لقيتها تحمل شفرة , وأزنادا بخبت الجميش فلا تهجها .قال أبو جعفر: ففيما روينا إثبات تحريم مال المسلم على المسلم."

(باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الضيافة من إيجابه إياها ومما سوى ذلك، ٧ / ٢٥٢، ط: مؤسسة الرسالة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100069

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں