بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا اپنے نام کےساتھ شوہر کا نام لکھنا


سوال

کیا شادی کے بعد عورت اپنے نام کے ساتھ والد کے نام کی جگہ شوہر کا نام لکھ سکتی ہے؟

جواب

عورت کے نام کے ساتھ  والدکا نام لگے یا شوہر کا،  درحقیقت مقصد اس سے تعارف اور شناخت  ہے، اور یہ  شناخت ان دو طریقوں کے علاوہ بھی ہوسکتی ہے۔ قرآن وحدیث میں بعض عورتوں کا تعارف اللہ نے ان کے شوہروں کی نسبت سے کرایا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:

﴿ اِمْرَاَةَ نُوْحٍ وَّ امْرَاَةَ لُوْطٍ، كَانتا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ ﴾(التحریم:10) ترجمہ: یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی۔الخ

حدیث میں ہے:  "جَاءَتْ زَینب امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، تستاذن عَلیه، فَقیل: یا رَسُولَ الله، هذه  زینَبُ، فَقَالَ: أَي الزیانِبِ؟ فَقِیلَ: امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: نَعَمْ، ائْذَنُوا لَها“.(بخاری و مسلم) حضرت ابوسعید خُدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زینب جو امراۃ ابنِ مسعود ہیں، یعنی حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں اور اجازت طلب کی، پوچھا گیا کون سی زینب؟ جواب دیا گیا کہ: امراۃ ابنِ  مسعود. آپ نے فرمایا کہ: ہاں! اُسے آنے کی اجازت ہے.

اسی طرح آدمی کی پہچان بعض مرتبہ وَلاء یعنی جس نے غلام کو آزاد کیا ہے، اس سے ہوتی ہے، جیسے: "عَکرَمَه مولی ابن ِ عباس“، کبھی پیشہ کے بیان سے ہوتی ہے، جیسے:"قدوری" وغیرہ،  کبھی لقب  و  کنیت  سے ہوتی ہے، جیسے: "أبو محمّد أعمَش“، کبھی ماں سے ہوتی ہے حالاں کہ باپ معروف ہوتا ہے جیسے "إسماعیل ابن علیة“، وغیرہ وغیرہ.

 مقصد تعارف اور شناخت ہے، اگر  شادی کے بعد  شناخت  کے لیے  باپ ہی کا نام رہے  یا  شوہر کا نام آجائے تو اس میں کوئی قباحت  نہیں۔

باقی اگرکسی کو یہ شبہ ہوکہ بعض احادیث میں والد کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اس بارے میں وعیدیں بھی آئی ہیں، تو واضح رہے کہ ان احادیث کا مقصد یہ ہے کہ اپنے والد کو چھوڑ کر کسی اور شخص کی طرف اپنی نسبت اس طور پر کرنا کہ وہ دوسرا شخص والد سمجھا جائے یا اپنے والد کی نفی کرکے دوسرے کو والد کہنا ممنوع ہے۔ جہاں یہ شبہ نہ ہو تو کسی کی طرف اولاد والی نسبت کرنے کی بھی گنجائش ہوگی، مثلاً: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیثِ مبارکہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کو پیارا بیٹا کہنا ثابت ہے۔

جب کہ بیوی کا نام شوہر کی طرف منسوب کرنے میں کسی طرح بھی ولادت کی نسبت نہیں سمجھی جاتی، لہٰذا یہ نسبت حدیث کی ممانعت میں داخل نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144202201366

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں