بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا اپنے میکے جا کر طلاق کا دعوی کرنا جبکہ شوہر انکاری ہو ہے


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ : میں نے اپنی بیوی کو کسی  قسم کی طلاق کے الفاظ نہیں بولے، میری بیوی اپنے والدین کے گھر چلی گئی ہے، اور کہتی ہے کہ میرے شوہر نے مجھے فیصلہ دے دیا ہے، جبکہ میں نے ایسی کوئی بات اسے نہیں کہی ہے۔

اب میری بیوی کہہ رہی ہے کہ میں آپ کے خلع کے کاغذات بھیج رہی ہوں، آپ اس پر سائن کرکے تمام معاملات ختم کردیں۔

 شوہر کی جانب سے طلاق دئے بغیر  کیا طلاق ہوجاتی ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں  محض بیوی کے دعوی کی بنا پر  طلاق واقع نہ ہوگی، کیوں کہ  طلاق واقع ہونے کے لئے شوہر کی جانب سے بیوی کو طلاق دینا شرعا ضروری ہوتا ہے، لہذا   سائل کی بیوی  اگر طلاق یا رشتہ ختم ہونے کا دعوی کرتی ہے، اور سائل انکاری ہے،  تو  بیوی  پر لازم ہوگا کہ وہ  شرعی گواہوں کے ذریعہ اپنا دعوی ثابت کرے، پس اگر وہ گواہ پیش نہ کرسکے، اور شوہر طلاق نہ دینے پر حلف اٹھالے تو اس صورت میں سائل کی بیوی کا دعوی مسترد ہوگا، نکاح بدستور قائم رہے گا۔

الغرض میاں بیوی میں طلاق دینے نہ دینے پر اختلاف کی صورت میں اس کا شرعی حل یہ ہے کہ  دونوں کسی معتبر عالم دین یا مفتی صاحب کے پاس حاضر ہوکر انہیں فیصل مقرر کریں، پھر وہ صورتحال کا جائزہ لے کر جو  شرعی فیصلہ دیں اس پر عمل کیا جائے۔

نیز  بیوی اگر خلع کے کاغذات تیار کرکے بھیج دے تو خلع کو جب تک شوہر تسلیم نہ کرلے، اس وقت تک شرعا خلع نہیں ہوتی، نکاح بدستور قائم رہتا ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"تفسيره تصيير غيره حاكما فيكون الحكم فيما بين الخصمين كالقاضي في حق كافة الناس وفي حق غيرهما بمنزلة المصلح، كذا في محيط السرخسي."

( كتاب ادب القاضي، الباب الرابع والعشرون في التحكيم، ٣ / ٣٩٧، دار الفكر، بيروت - لبنان)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

" وأما حجة المدعي والمدعى عليه فالبينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه لقوله - عليه الصلاة والسلام - «البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه» جعل - عليه الصلاة والسلام - البينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه والمعقول كذلك لأن المدعي يدعي أمرا خفيا فيحتاج إلى إظهاره وللبينة قوة الإظهار لأنها كلام من ليس بخصم فجعلت حجة المدعي واليمين."

( كتاب الدعوي، فصل في حجة المدعي والمدعى عليه، ٦ / ٢٢٥، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إزالة ملك النكاح ببدل بلفظ الخلع كذا في فتح القدير. "

( كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع وما في حكمه، الفصل الأول في شرائط الخلع وحكمه وما يتعلق به الخلع، ١ / ٤٨٨، ط: دار الفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

" وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول".

(كتاب الطلاق، باب الخلع، ٣ / ٤٤١، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100503

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں