بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے ساتھ الگ گھر میں رہائش اختیار کرنا


سوال

 میری شادی کو پانچ ماہ ہوئے ہیں۔ شادی میرے والد صاحب کے دوست کی بہن سے ہوئی ہے۔ میں حافظ قرآن ہوں اور ہمارا خاندان کافی مذہبی ہے  جب کہ بیگم کا گھر بالکل مختلف اور کافی بے پردگی  والا ہے۔ شادی کی تقاریب میں بے پردگی اور فوٹوگرافی کو لے کر کچھ بدمزگی ہوئی؛ کیوں کہ میرے سسرال والے پکوان والے ہیں اور ولیمہ کا کھانا ان ہی سے پکوایا گیا تھا جس میں کچھ تاخیر اور کچھ کمی واقع ہوئی تو والد صاحب نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ فوٹوگرافی اور بے پردگی کے معاملے میں سختی کا بدلہ سسرال والوں نے کھانے میں تاخیر اور کمی کر کے لیا۔

اب شادی تو ہو گئی، لیکن زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے۔ والد صاحب کو بیوی اور اس کے گھر والوں سے ملنا پسند نہیں؛  لہٰذا جب ان سے ملنے جانا ہو یا کوئی تقریب ہو تو گھر میں بد مزگی۔ شادی سے پہلے گھر میں تعمیر ہوئی اور مجھے گھر میں نئی منزل پر رکھا گیا،  لیکن شادی کے بعد والد صاحب نے مدرسہ کھولا اور کہا کہ آپ لوگ نیچے والی منزل پہ چلے جاؤ۔

اب نیچے یہ مسئلہ آگیا کہ والد صاحب میرے اور بیوی کے کمرے میں جانے کا وقت مقرر کر رہے ہیں اور یہ دھمکی ہے کہ اگر اس پہ عمل نہ کیا تو دروازہ توڑ دوں گا۔

والد صاحب ضرورت سے زیادہ بد گو  ہیں اور بہت زیادہ گالم گلوچ،  چیخ پکار اور والدہ اور میرے  ساتھ مار کٹائی کرتے ہیں۔

آخرکار میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں بیوی کو لے کر الگ گھر چلا جاؤں۔ میرے ایک ہی بڑے بھائی ہیں جو پہلے ہی نوکری کی وجہ سے بیوی اور بچے کے ساتھ دوسرے شہر میں ہیں اور اس ماحول میں آنا بھی نہیں چاہتے۔

بیوی کی طرف میرے اچھے رویے سے والد صاحب نے یہ اخذ کر لیا ہے کہ میری بیوی اور اس کے گھر والوں نے مجھ پہ جادو کروا دیا ہے اور اس کا اظہار وہ نہایت واہیات گالیوں کے ساتھ کرتے رہتے ہیں۔

اس ساری صورتِ حال میں میرے الگ گھر کے فیصلے میں راہ نمائی فرما دیجیے اور یہ بھی ہدایت  کیجیے کہ الگ ہونے کے بعد کس حکمت عملی کو اپناؤں کہ والدین اور بیوی دونوں کے حقوق ادا ہو سکیں۔

اس وقت والدہ سب  سے زیادہ مرکزِ  فکر ہیں؛ کیوں کہ وہ براہِ  راست والد صاحب کے زیر عتاب ہوں گی، لیکن وہ جنتی خاتون ہیں اور عمر کے اس حصے میں شوہر سے الگ نہیں ہونا چاہتیں۔

دونوں کی عمر ساٹھ  سال اور صحت کے لحاظ سے دونوں تندرست ہیں،  البتہ بلڈ پریشر شوگر وغیرہ تو آج کل مجھ سمیت سب ہی کو رہتا ہے۔ میری عمر چھبیس سال ہے۔ 

جواب

 شادی شدہ شخص پر بیوی بچوں کے جداگانہ حقوق ہیں اور والدین کے مستقل حقوق ہیں، کسی ایک کی ادائیگی کی وجہ سے دوسرے کی حق تلفی درست نہیں ہے،  پس  والدین کے حقوق (خدمت و راحت رسانی اور ادب و احترام) کی ادائیگی کی حتی الوسع کوشش کرتے رہنا چاہیے، اسی طرح بیوی اور اولاد کے حقوق ادا  کرنا بھی ضروری ہے۔

پس شوہر ہونے کے اعتبار سے  سائل پر اپنی   بیوی کو ایسی  رہائش فراہم کرنا شرعًا ضروری ہے کہ جس میں کسی اور کا عمل دخل نہ ہو،  جب کہ بیٹا ہونے کے اعتبار سے اس پر اپنے والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنا، ان کے ضروت مند  ہونے کی صورت میں نان و نفقہ کا بندوبست کرنا ، ان کے  لیے دعا کرتے رہنا اور ان کا ادب و احترام کرنا لازم ہے، البتہ والدین کے  مال دار  ہونے کی صورت میں ان کا نفقہ  لازم نہیں،   پس  اگر انسان ہمت کرے اور آخرت کی جواب دہی کا احساس رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مانگتا رہے تو دونوں (والدین اور بیوی بچوں) کے حقوق ادا کرنا آسان ہوجاتاہے۔

بصدقِ  واقعہ  صورتِ  مسئولہ میں اپنی اہلیہ کو الگ رہائش فراہم کرنا  بیوی کا شرعی  حق ہے، جس کی ادائیگی  سائل پر لازم ہے، اور اس میں والدین کی حق تلفی بھی نہیں۔

حضرت  مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

’’ ماں باپ کی بات کس حد تک ماننا ضروری ہے؟

ج… والدین کی فرماں برداری اور ان کی خدمت کے بارے میں واقعی بڑی سخت تاکیدیں آئی ہیں، لیکن یہ بات غلط ہے کہ والدین کی ہر جائز و ناجائز بات ماننے کا حکم ہے، بلکہ والدین کی فرماں برداری کی بھی حدود ہیں، میں ان کا خلاصہ ذکر کردیتا ہوں:

اوّل:… والدین خواہ کیسے ہی بُرے ہوں، ان کی بے ادبی و گستاخی نہ کی جائے، تہذیب و متانت کے ساتھ ان کو سمجھا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ سمجھانا ضروری ہے، لیکن لب و لہجہ گستاخانہ نہیں ہونا چاہیے، اور اگر سمجھانے پر بھی نہ سمجھیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔

دوم:… اگر وہ کسی جائز بات کا حکم کریں تو اس کی تعمیل ضروری ہے بشرطیکہ آدمی اس کی طاقت بھی رکھتا ہو اور اس سے دُوسروں کے حقوق تلف نہ ہوتے ہوں، اور اگر ان کے حکم کی تعمیل اس کے بس کی بات نہیں یا اس سے دُوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے تو تعمیل ضروری نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں جائز نہیں۔

سوم:… اگر والدین کسی ایسی بات کا حکم کریں جو شرعاً ناجائز ہے اور جس سے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، تب بھی ان کے حکم کی تعمیل جائز نہیں، ماں باپ تو ایسا حکم دے کر گناہ گار ہوں گے، اور اولاد ان کے ناجائز حکم کی تعمیل کرکے گناہ گار ہوگی۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور ارشادِ گرامی ہے: ’’لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق‘‘  یعنی جس چیز میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو اس میں کسی مخلوق کی فرماں برداری جائز نہیں۔” مثلاً: اگر والدین کہیں کہ: “نماز مت پڑھو، یا دِین کی باتیں مت سیکھو، یا داڑھی مت رکھو، یا نیک لوگوں کے پاس مت بیٹھو  وغیرہ وغیرہ، تو ان کے ایسے اَحکام کی تعمیل جائز نہیں، ورنہ والدین بھی جہنم میں جائیں گے اور اولاد کو بھی ساتھ لے جائیں گے۔

اگر والدین یہ کہیں کہ: ’’بیوی کو طلاق دے دو‘‘  تو یہ دیکھنا چاہیے کہ بیوی قصوروار ہے یا نہیں؟ اگر بیوی بے قصور ہو تو محض والدین کے کہنے سے طلاق دینا جائز نہیں۔ اگر والدین کہیں کہ: ’’بیوی کو تنہا مکان میں مت رکھو‘‘  تو اس میں بھی ان کی تعمیل روا نہیں۔ البتہ اگر بیوی اپنی خوشی سے والدین کے ساتھ رہنے پر راضی ہو تو دُوسری بات ہے، ورنہ اپنی حیثیت کے مطابق بیوی کو علیحدہ مکان دینا شریعت کا حکم ہے، اور اس کے خلاف کسی کی بات ماننا جائز نہیں۔

چہارم:… والدین اگر ماریں پیٹیں، گالی گلوچ کریں، بُرا بھلا کہیں یا طعن و تشنیع کرتے رہیں، تو ان کی ایذاوٴں کو برداشت کیا جائے اور ان کو اُلٹ کر جواب نہ دیا جائے۔

پنجم:… آپ نے جو لکھا ہے کہ: “اگر والدین کہیں کہ ....اپنی اولاد کو مار ڈالو تو ...اولاد کو مار ڈالنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، اور میں لکھ چکا ہوں کہ ناجائز کام میں والدین کی اطاعت جائز نہیں...!"۔

(آپ کے مسائل اور ان کا حل ، والدین اور اولاد کے تعلقات،  8 / 559 - 560، ط: مکتبہ لدھیانوی)

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله و أهلها إلا أن تختار ذلك كذا في العيني شرح  الكنز."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثاني في السكني، ١/ ٥٥٦، ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201906

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں