بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے نان و نفقہ کے حصول کی خاطر والد کی معاونت سے الگ ہونا


سوال

 میرے والدین کے مجھ سمیت پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہے، ہم چار بھائی اور بہن شادی شدہ ہیں، میرا نمبر چوتھا ہے، مجھ سے چھوٹا پانچویں نمبر کا بھائی غیر شادی شدہ ہے، سب سے بڑے دو بھائیوں کو میرے والدین نے اس شرط پر اپنی جائیداد میں سے ان کا معقول حصہ دیا ہے کہ ان کے انتقال کے بعد ان کو وراثت میں سے کچھ حصہ نہیں ملےگا، جس کے لیےبنوری ٹاؤن سے فتوی بھی لیا گیا اور بعد میں اسٹامپ پیپر پر باقاعدہ تحریری معاہدہ بھی کیاگیا، میری بہن جوکہ شادی شدہ ہے، الحمدللہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنے گھر میں خوش ہے، بڑے دو بھائی اپنے الگ گھر میں رہتے ہیں اور خرچے کی مد میں ماہانہ ایک روپیہ بھی والدین کو نہیں دیتے، سال میں پانچ چھ بار والدین کو ایک دو دن کے لیے اپنے یہاں مدعو ضرور کرتے ہیں،جب کہ مہینہ میں ایک دو بار والدین کی دعوت پر ہمارے یہاں دعوت کا سلسلہ ضرور ہوتا ہے، ہم چھوٹے تین بھائی اپنے والدین کے ساتھ اکھٹے رہتے ہیں  اور والد کی دکان پر ساتھ کام کرتے ہیں۔ والد اب گزشتہ پانچ چھ سالوں سےزائد عمر ہوجانے کی وجہ سے روزگار کے حوالے سے کوئی کام نہیں کررہے ہیں، خرچے کی تفصیل یہ ہے کہ ہم تین بھائیوں کی باقاعدہ کوئی تنخواہ مقرر نہیں ہے، دکان کی ساری آمدنی پر اختیار والد صاحب کا  ہے، جب کہ  گھر کے  سارے انتظام کا اختیار والدہ کے پاس ہے، کھانا پینا اور رہائش کی بنیادی سہولیات کے علاوہ کچھ معمولی سی خرچی ملتی ہے، جس سے میں اپنی بیوی کے زیور کی زکوۃ ادائیگی میں مدد بھی نہیں کرسکتا، اس بےچاری گھریلو خاتون کو زکوۃ کی ادائیگی کے لیے اپنا زیور فروخت کرنا پڑ رہاہے، والد صاحب نے چھوٹے بھائی کی شادی کے لیے فلیٹ کی چھت پر کمرے تعمیر کروائے، جس کی لاگت دس سے پندرہ لاکھ آئی، لیکن حالیہ بارشوں میں سارا نتیجہ سامنے آگیا، یہ کمرے رہائش کے قابل نہیں ہیں، ہم تینوں بھائیوں کا مشورہ یہی ہے کہ ہمیں مزید مالی نقصان نہ ہو، ہمیں اب یہ فلیٹ فروخت کردینا چاہیے، لیکن والد صاحب سنجیدہ نہیں ہیں۔ دکان پر بھی ہماری ضروریات کا والد صاحب کو کوئی خاص خیال نہیں ہے، بائیس سال پرانی دکان کو کبھی اپ گریڈ کرنے کی بات کی جائے تو یکسر انکار کردیا جاتا ہے، گرمی کی وجہ سے چار پانچ سال سے ایک مخصوص زاویے پر پنکھے کی درخواست کی جاتی رہی، لیکن مسئلہ حل نہ کیاگیا، مجبور ہوکر گھر سے ایک پرانا پیڈیسٹل فین اٹھاکر ضرورت پوری کی گئی، سترہ سال سے والد صاحب کی دکان پر کام کرنے کے بعد میرا یہ حال ہے۔

قسمت کی بات ہے اللہ کی طرف سے آزمائش ہے کہ ابھی میں اگر دکان چھوڑ دیتا ہوں تو دکان چھوڑنے کے بعد میرے پاس ذاتی ٹھییہ لگانے کے بھی پیسے نہیں ہیں، اگر گھر چھوڑ دیتا ہوں تو گھر چھوڑنے کے بعد میرے پاس ذاتی جھونپڑی لگانے کے بھی پیسے نہیں ہیں، میری بیوی اچھے امیر گھرانے سے آئی ہے، چوں کہ عالمہ ہے، میں بھی الحمداللہ حافظ ہوں، اب تک صبر شکر کے ساتھ رہ رہے ہیں، لیکن اب حالات بگڑ رہے ہیں، ساس بہو کے مسائل اور جوائنٹ فیملی کے دیگر بہت سارے مسائل میں بھی اضافہ ہورہاہے، ہم میاں بیوی کے درمیان اب لڑائی جھگڑے میں دن بہ دن اضافہ ہورہاہے، میرے سسر اچھی حیثیت کے حامل ہیں،انہوں نے میری بیوی کے علاوہ اپنی دو بیٹیوں کو فلیٹ دیا ہے، چوں کہ ان کے گھر میں مسائل تھے، اب میری بیوی نے بھی ناگریز حالات کی وجہ سے اپنے والدین سے فلیٹ دینے کی درخواست کی ہے، فوری طور پر تو شاید وہ نہ دے سکیں ایک دو سال کا عرصہ لگ سکتاہے، پوچھنا یہ تھا کہ اگر میرے سسر الگ گھر کی سہولت مہییا کر دیتے ہیں،  تو پھر میں اپنے بیوی بچوں اور گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کوئی دوسرا کام یا محنت مزدوری کرلوں اور والد صاحب کی دکان اور گھر چھوڑ دوں تو کیسا رہےگا؟ میرا  اس طرح سے اپنے والدین  کا گھر اور دکان چھوڑنا  ناجائز تو نہیں ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ شادی کے بعد مرد پر اپنی بیوی و نابالغ بچوں اور بالغ بچیوں کے نان و نفقہ کا انتظام کرنا واجب ہوتا ہے، لہذا صورت مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ وہ اپنے   والد  سے اپنے لیے معروف تنخواہ مقرر کروالے، لہذا اگر وہ اسے تنخواہ دینے پر راضی نہ ہوں تو اس صورت میں سائل کسی اور جگہ نوکری کرسکتا ہے، بیوی بچوں کے نان و نفقہ کے انتظام کی خاطر  والد کی دکان کو چھوڑ کر کسی اور جگہ نوکری کرنے کی وجہ سے سائل گناہ گار نہ ہوگا، نیز بیوی کے لیے رہائش فراہمی کی  ذمہ داری شرعا شوہر پر ہوتی ہے،  لہذا سائل کے لیے اپنے سسر سے گھر کا مطالبہ کرنا درست نہیں، البتہ اگر سسر اپنی خوشی سے اپنی بیٹی کو گھر دیتے ہیں تو سائل بیوی کے گھر میں رہائش اختیار کرسکتا ہے،   بہر صورت سائل خواہ اپنے  والد کے گھر میں رہے  یا نہ رہے ؛ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک لازم ہوگا۔

نیز سائل کے والد حیات ہیں، ان کے کاروبار اور گھر میں ان کی اجازت کے بغیر کسی قسم کے تصرف کا اختیار سائل یا اس کے دیگر بھائیوں کو نہ ہوگا۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام لعلي حيدر میں ہے:

" [ (المادة ٩٦) لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه]

لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه هذه المادة مأخوذة من المسألة الفقهية (لا يجوز لأحد التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته) الواردة في الدر المختار."

( المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ١ / ٩٦، ط: دار الجيل )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"تجب على الرجل نفقة امرأته المسلمة والذمية والفقيرة والغنية دخل بها أو لم يدخل كبيرة كانت المرأة أو صغيرة يجامع مثلها كذا في فتاوى قاضي خان سواء كانت حرة أو مكاتبة كذا في الجوهرة النيرة."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الأول في نفقة الزوجة، ١ / ٥٤٤، ط: دارالفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك كذا في العيني شرح الكنز."

( كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثاني في السكنى، ١ / ٥٥٦، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100389

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں