بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے مطالبہ پر داڑھی کٹوانا


سوال

اگر بیوی داڑھی کٹوانے کا کہے تو کیا کریں؟

جواب

واضح رہے کہ ایک مشت  داڑھی  رکھنا واجب ہے، اور اس سے کم کرنا جائز نہیں،  جس پر تمام  فقہاء کرام کا اتفاق ہے، نیز  داڑھی  منڈوانا  بالاتفاق  ناجائز ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں بیوی کی فرمائش  پر داڑھی کٹوانا  ناجائز ہے، کیوں کہ اللہ  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے احکامات  کی خلاف ورزی کرنا حرام ہے، اگر بیوی کا مقصد ایک مشت ہونے سے پہلے کٹوانا ہے تو یہ گناہ کی بات ہے، ایسی عورت پر ضروری ہے کہ توبہ و استغفار کرے اور احتیاطاً نکاح کی تجدید بھی کرے۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

" ٣٣٧١٧ - حدثنا وكيع، قال ثنا مبارك، عن الحسن، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق."

( كتاب السير، في إمام السرية يأمرهم بالمعصية ; من قال: لا طاعة له، ٦ / ٥٤٥، ط: مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ خالق کائنات کی نافرمانی  میں مخلوق  کا کہا ماننا جائز نہیں۔

صحیح البخاری میں ہے:

" ١٥ - حدثنا يعقوب بن أبراهيم قال: حدثنا ابن علية، عن عبد العزيز بن صهيب، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم (ح). وحدثنا آدم ‌قال: حدثناشعبة عن قتادة، عن أنس قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين»."

( كتاب الإيمان، باب: حب الرسول صلى الله عليه وسلم من الإيمان، ١ / ١٢، ط: السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر)

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کے والد (ماں پاب) اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے۔

العرف الشذی میں ہے:

"وأما تقصیرُ اللحیة بحیثُ تصیرُ قصیرة من القبضة، فغیرُ جائزٍ فی المذاهب الأربعة."

( کتاب الآداب، باب ما جاء في تقلیم الأظفار، ٤ / ١٦٢، ط: دار الکتب العلمیة)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"أو تطويل اللحية إذا كانت بقدر المسنون وهو القبضة وصرح في النهاية بوجوب قطع ما زاد على القبضة بالضم، ومقتضاه الإثم بتركه لا أن يحمل الوجوب على الثبوت، وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة، ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد، وأخذ كلها فعل يهود الهند ومجوس الأعاجم فتح.

مطلب في الأخذ من اللحية.

 (قوله: وأما الأخذ منها إلخ) بهذا وفق في الفتح بين ما مر وبين ما في الصحيحين عن ابن عمر عنه - صلى الله عليه وسلم - «أحفوا الشوارب واعفوا اللحية» قال: لأنه صح عن ابن عمر راوي هذا الحديث أنه كان يأخذ الفاضل عن القبضة، فإن لم يحمل على النسخ كما هو أصلنا في عمل الراوي على خلاف مرويه مع أنه روي عن غير الراوي وعن النبي - صلى الله عليه وسلم - يحمل الإعفاء على إعفائها عن أن يأخذ غالبها أو كلها كما هو فعل مجوس الأعاجم من حلق لحاهم، ويؤيده ما في مسلم عن أبي هريرة عنه - صلى الله عليه وسلم - «جزوا الشوارب واعفوا اللحى خالفوا المجوس» فهذه الجملة واقعة موقع التعليل، وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة، ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد اهـ ملخصا."

( كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ٢ / ٤١٧ - ٤١٨، ط: دار الفكر )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101390

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں