بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کےانتقال کے بعد سالےاورسالیوں سےتعلق کی کیا نوعیت ہونی چائیے؟


سوال

ہمارےایک عزیز کی زوجہ کاتقریباًپانچ سال قبل انتقال ہوگیاہے،اب چھ ماہ قبل انہوں نےدوسری شادی کی ہے،ان کے پہلے زوجہ سےدوبیٹےاوردوبیٹیاں ہیں،اورسب شادی شدہ اورصاحب اولاد ہیں،اوران کےپہلےساس اورسسرکابھی انتقال ہوچکاہے،اب وہ اپنےساتھ اپنی دوسری زوجہ کوپہلےسالوں اورسالیوں کےساتھ خوشی اورغمی میں شرکت کرنےکےخواہان ہیں،جب کہ سالےاورسالیاں دوسری زوجہ کے لیےاجنبی ہیں۔

(1)اب یہ معلوم کرناہےکہ بیوی کےانتقال کے بعد سالےاورسالیوں سےتعلق کی کیانوعیت ہونی چائیے؟

(2)والدہ کے انتقال کے بعد اپنےماموؤں اورخالاؤں کےساتھ کس نوع کاتعلق رکھناچائیے؟

(3)سابقہ سسرال والے اپنےسابقہ بہنوئی سےتعلق رکھیں،لیکن اس کی دوسری زوجہ سےکوئی تعلق نہ رکھیں توقطع تعلق کےگناہ میں ملوث تونہیں ہوں گے؟

جواب

(1)واضح رہےکہ سالیاں جیسےبیوی کی زندگی میں اجنبیہ اورنامحرم ہوتی ہیں،ایسے ہی بیوی کی فوتگی کےبعد بھی اجنبی ہوتی ہیں؛  اس  لیے ان  سے پردہ کرنا لازم ہے، ان کے ساتھ بلا ضرورت بات چیت اور گپ شپ یا ہنسی مذاق کرنا، تنہائی میں ساتھ رہنا اور بے پردہ سامنے آنا وغیرہ جائز نہیں ہے،البتہ شدیدضرورت کےوقت بہنوئی کے لیےپردے کے اہتمام اور سنجیدگی کے ساتھ اپنی سالیوں سےحُسن سلوک اورخوش طبعی کےساتھ تعلقات رکھنے کی اجازت ہے،باقی سالوں سےبھی اچھےاخلاق اورخوش طبعی کےساتھ تعلقات قائم رکھنےچاہئیں۔

(2)اولادکواپنی والدہ کی زندگی میں اپنےمامؤوں کوبڑاسمجھ کراورخالاؤں کواپنی والدہ کی جگہ سمجھ کر نہایت ادب اوراحترام کےساتھ پیش آناچاہیے،ایسےہی والدہ کےمرنے کےبعد بھی احترام اورادب کاخیال رکھتےہوئےاپنےمامؤوں اورخالاؤں کےساتھ تعلقات قائم رکھنےچاہئیں۔

(3)پہلے سُسرال والےاپنےسابق بہنوئی سےاچھےتعلقات رکھنےسےاجرکےمستحقین ہوں گے،اورسابق بہنوئی کی دوسری بیوی کےساتھ(اجنبیہ اورنامحرم ہونےکی وجہ سے) تعلقات نہ رکھنےکی وجہ سےشرعی طورپران کاکوئی مؤخذہ نہیں ہوگا،اورنہ کسی گناہ میں ملوث ہوجائیں گے۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورة النور:31)."

ترجمہ:"اور (اسی طرح) مسلمان عورتوں سے (بھی) کہہ دیجیئے کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کے مواقع کو ظاہر نہ کریں مگر جس اس (موقع زینت) میں سے (غالباً) کھلا رہتا ہے (جس کے ہر وقت چھپانے میں حرج ہے) اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھا کریں اور اپنی زینت (کے مواقع مذکورہ) کو (کسی پر) ظاہر نہ ہونے دیں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے (محارم پر یعنی) باپ پر یا اپنے شوہر کے باپ پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہر کے بیٹوں پر  یا اپنے حقیقی (علاتی یا اخیانی) بھائيوں پر) یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں پریا اپنی (حقیقی علاتی اور اخیانی) بہنوں کے بیٹوں پر یا اپنی عورتوں پر  یا اپنی لونڈیوں پر یا ان مردوں پر جو طفیلی (کے طور پر رہتے ) ہوں اور ان کو ذرا توجہ نہ ہو یا ایسے لڑکوں پر جو عورتوں کے پردوں کی باتوں سے ابھی ناواقف ہیں (مراد غیر مراہق ہیں) اور اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہو جائے اور مسلمانو (تم سے جو ان احکام میں کوتاہی ہو گئی ہو تو) سب الله کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔(بیان القرآن)"

مسندامام احمدؒ میں ہے:

"عن عبادة بن الصامت، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ‌ليس ‌من ‌أمتي ‌من ‌لم ‌يجل ‌كبيرنا، ويرحم صغيرنا، ويعرف لعالمنا."

(‌‌حديث عبادة بن الصامت، ج:37، ص:416، مؤسسة الرسالة)

أحكام القرآن  للجصاص ميں هے:

"عن أم سلمة قالت: "لما نزلت هذه الآية: {يدنين عليهن من جلابيبهن} خرج نساء من الأنصار كأن على رءوسهن الغربان من أكسية سود يلبسنها".

قال أبو بكر: في هذه الآية دلالة على أن المرأة الشابة مأمورة بستر وجهها عن الأجنبيين وإظهار الستر والعفاف عند الخروج لئلا يطمع أهل الريب فيهن."

(ج:3، ص:486، باب ذكر حجاب النساء، ط: دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الشرنبلالية معزيا للجوهرة: ولا يكلم الأجنبية ‌إلا ‌عجوزا عطست أو سلمت فيشمتها لا يرد السلام عليها وإلا لا انتهى."

(كتاب الحظر والإباحة، ‌‌فصل في النظر والمس، ج:6 ص:369 ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100661

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں