بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بزرگوں کی ارواح سے کسب فیض اور قبر پر مراقبہ کا حکم


سوال

 بزرگوں کی وفات کے بعد بھی فیض جاری رہتا ہے اس نیت سے قبر پر جاکر مراقبہ کرنا تاکہ بزرگوں کا فیض حاصل ہوجائے صورت مسئلہ یہ ہے کہ جیسا کہ حضرت نے اپنے بیان میں فرمایا کہ بزرگوں کا فیض ان کی وفات کے بعد بھی جاری رہتا ہے تو معلوم یہ کرنا ہے اس میں کیا تفصیل ہے ؟ کیونکہ آج کل فتنوں کا دور ہے اور کچھ لوگ(عوام الناس جن کو مسائل کا علم نہیں) اپنے شیخ کی قبر پر جاتے ہیں وہاں نوافل ادا کرتے ہیں، قبر پر مراقبہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بزرگوں سے فیض ان کی وفات کے بعد بھی جاری رہتا ہے اس لیے برکت اور فیض حاصل کرنے کے لیے ان کی قبر پر جاتے ہیں اور یہ عمل کرنے بہت پابندی سے ہر ماہ کے دوسرے اتوار کو ان کی قبر پر جاتے ہیں اور اس قافلے میں مرد اور عورتیں بچے(حتی کہ شیر خوار بچے تک) سب جاتے ہیں۔ اور اب حضرت کے اس بیان کو دلیل بنایا جارہا ہے کہ بزرگوں سے فیض حاصل ہوتا ہے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ اس طرح اس نیت سے قبروں پر مرد و عورتوں اور بچوں کا جاکر مراقبہ کرنا کہ مذکورہ بزرگ سے فیض و برکات حاصل ہوں گی یہ درست ہے؟

جواب

ارواح سے کسب فیض ثابت ہے اور بزرگوں کی قبر پر مراقبہ کرنا  فی نفسہ جائز ہے(ضروری نہیں)،لیکن یہ اخص الخواص اور کاملین کے لیے ہے،عوام میں اُن کی  ناواقفیت کی بنا پر اس طرح کی باتیں بیان  کرنے سے   عام لوگوں میں  قبر پرستی،غلط عقائد اور طرح طرح کے خرافات اور بدعات   پیدا ہوتے ہیں،جس سے وہ کفر وشرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں ،اس لیے اس طرح کی باتیں عوامی طبقہ  میں بیان کرنےسے گریز کرنا چاہیے، باقی شرعی اعتبار سے قبر پر نوافل پڑھنااورجوان عورت اگر جزع فزع نہ کرے تب بھی اس کے لیے بزرگوں کی قبر پر زیارت  اور کسب فیض وغیرہ  کے لیے جانا مکروہ ہے،اور  جب مقصد مراقبہ اور کسب فیض ہی ہے تو بچوں کو ساتھ لے جانے کی  کوئی وجہ نہیں،ساتھ ہی ایک غیر ضروری کام کے لیے  ہفتہ وار اس قدر اہتمام کرنا کہ ایک ہی قافلہ میں مردوعورت اور بچوں سب ہی کو اکھٹا کرکے ایک ساتھ لے جانا بھی  فتنہ سے  خالی نہیں ہے،اس لیےان تمام شرعی مفاسد کی بنیاد پر مذکورہ قافلہ میں شرکت کرناشرعا جائز نہیں ہے۔

البحر الرائق شرح کنز الدقائق ومنحۃ الاخالق میں ہے:

"قوله وقيل تحرم على النساء إلخ) قال الرملي أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلا تجوز لهن الزيارة، وعليه حمل الحديث «لعن الله زائرات القبور» ، وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز ويكره إذا كن شواب كحضور الجماعة في المساجد ."

(کتاب الجنائز،ج2،ص210،ط؛دار الکتاب الاسلامی)

عمدۃ القاری میں ہے:

"واعلم أن العلماء اختلفوا في جواز الصلاة على المقبرة، فذهب أحمد إلى تحريم الصلاة في المقبرة، ولم يفرق بين المنبوشة وغيرها، ولا بين أن يفرش عليها شيء يقيه من النجاسة أم لا، ولا بين أن تكون بين القبور أو في مكان منفرد عنها، كالبيت والعلو، وقال أبو ثور: لا يصلى في حمام ولا مقبرة على ظاهر الحديث، يعني قوله: (الأرض كلها مسجد إلا المقبرة والحمام) . وذهب الثوري وأبو حنيفة والأوزاعي إلى كراهة الصلاة في المقبرة،.......الخ"

(باب هل تنبش قبور مشركي الجاهلية ويتخذ مكانها مساجد،ج4،ص173،ط؛دار احیاء التراث العربی)

فتاوی رشیدیہ میں ہے:

" مزارات اولیاء سے فیض

"(سوال)مزارات اولیاء رحمہم اللہ سے فیض حاصل ہوتا ہے یا نہیں اگر ہوتا ہے تو کس صورت سے؟

(الجواب)مزارات اولیاء سے کاملین کو فیض حاصل ہوتا ہے مگر عوام کو اس کی اجازت دینی ہرگز جائز نہیں ہے اور تحصیل فیض کا طریقہ کوئی خاص نہیں ہے جب جانے والا اہل ہوتا ہے تو اس کی طرف سے حسب استعداد فیضان ہوتا ہے مگر عوام میں ان امور کا بیان کرنا کفر وشرک کا دروازہ کھولنا ہے۔فقط۔"

(کتاب العقائد،ص245،ط؛عالمی مجلس تحفظ اسلام)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

" قبر پر مراقبہ

"حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ،حضرت شاہ عبد الحق  صاحب محدث دہلویؒ،حضرت مجدد الف ثانی ؒ،حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی ؒ،حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ کی کتابوں میں بزرگ کے مزار پر مراقبہ کرنا موجود ہے،اس کا طریقہ تفصیل سے موجود ہے...."

(باب اھداء الثواب للمیت،ج9،ص268،فاروقیہ)

فتاوی مفتی محمود میں ہے:

" مردوں اور عورتوں کا مخلوط چور پر قبرستان جانا،....

"اختلاطِ زنان ومردان نہایت قبیح امر است۔چون زنان  را در مسجد برائے نماز رفتن جائز نیست  پس در مقابر رفتن مخلوط بامردان چگونہ جائز باشد۔در منحۃ الخالق حاشیہ بحرا لرائق...........الخ"

(کتاب الجنائز،ج3،ص100،ط؛جمعیۃ پبلیکشنز)

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

" قبرستان میں عورتوں کا جانا صحیح نہیں

"عورتوں کے قبرستان جانے پر اختلاف ہے،صحیح یہ ہے کہ جوان عورتوں کو ہرگز نہیں جانا چاہیے،بڑی بوڑھی اگر جائے اور وہاں کوئی خلافِ شرع کام نہ کرے تو گنجائش ہے۔

قبرستان میں نماز پڑھنے کی حدیث میں ممانعت آئی ہے،اس لیے قبرستان میں نفل پڑھنا جائز نہیں،اگر کبھی فرض نماز پڑھنے کی ضرورت پیش آجائے تو قبرستان سے ایک طرف کو ہوکر قبریں نمازی کے سامنے نہ ہوں،نماز پڑھ لی جائے۔"

(قبروں کی زیارت،ج4،ص406،ط؛مکتبہ لدھیانوی)

وفیہ ایضاً:

" عورتوں اور بچوں کا قبرستان جانا......

"چھوٹے بچوں کو قبرستان لے جانا تو بے ہودہ بات ہے،......الخ"

(قبروں کی زیارت،ج4،ص408،ط؛مکتبہ لدھیانوی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100741

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں