بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بزرگوں کی صحبت اور مجدد کی نشانیاں


سوال

 ۱- کیا بزرگوں کی صحبت کا کوئی نعم البدل ہے؟  جیسے کے آج کل کے پر فتن دور میں سچے بزرگوں کی قلت معلوم ہوتی ہے اور ہم عام مسلمان سچے کو بہروپیوں سے امتیاز نہیں کر پاتے  اور اکثر اوقات ان کی صحبت میں جانے میں کچھ نہ کچھ مصروفیت آ جاتی ہے ، مثلاً روزی تلاش کرنا ،گھر والوں کو وقت دینا ، سواری کا میسر نہ ہونا وغیرہ ۔

۲- مجدد زمانہ کی کیا نشانیاں ہیں ؟ 

جواب

1: فی نفسہ  ہر مسلمان کے  لیے دین سیکھنا سکھانا اس پر عمل کرنا فرض عین ہے  اور دین کو سیکھنے یا اس پر عمل کرنے اور تزکیہ قلب کا حصول کسی اللہ والے سے تعلق قائم کرنے سے حاصل ہوتا ہے، کیوں کہ  عمومی حالات ایسے ہیں کہ اللہ والوں کی صحبت اختیار نہ کی جائے تو دین کی طرف سے غفلت اور بے توجہی رہتی ہےاور ہر زمانہ میں کہیں نہ کہیں ایسے اللہ والے بزرگ موجود ہوتے ہیں جن سے تعلق رکھنے پر تزکیہ قلب حاصل ہوجاتا ہے، نیز یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہروقت بزرگوں کی مجالس ہی میں حاضر رہے، بلکہ جیسے وقت ملتا جائے اہلِ علم، صلحاء کی صحبت اختیار کی جائے اور ان کی مختلف معتمد کتابوں کا مطالعہ بھی جاری رکھا جائے، ان شاء اللہ دین کی طرف توجہ ہونے کے ساتھ ساتھ تزکیہ قلب اور گناہوں سے حفاظت بھی رہےگی۔

2:مجدد کی تعریف اور علامات وشرائط مندرجہ ذیل ہے:

" مجدد" کہتے ہیں ہر صدی کے اوائل میں پیدا ہونے والا وہ مصلح جو مسلمانوں میں مروج بدعات کی اصلاح کرتا ہے،جیسے کہ حدیث شریف میں ہے:

"وعنه فيما أعلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الله عز وجل يبعث لهذه الأمة على رأس كل مائة سنة من يجدد لها دينها» ."

( مشکوۃ المصابیح، کتاب العلم، رقم الحدیث:247، ج:1، ص:82، ط:المکتب الاسلامی)

"ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی میری اس امت کے لئے ہر صدی کے شروع میں ایک ایسا شخص (مجدد) مبعوث کرے گا جو دین اسلام کی ان کے  لیے تجدید کرے گا۔"

مجدد کی شرائط و علامات کتبِ فقہ میں مندرجہ ذیل ہے:

۱)  علوم ظاہرہ اور باطنہ کا عالم ہو ۔

۲) اس کے درس و تدریس ، تالیف و تصنیف سے نفع شائع ذائع ہو۔

۳) احیاے سنت اور اماتت بدعت میں سر گرم ہو۔

۴) ایک صدی کے آخر اور دوسری صدی کے آغاز میں اس کے علم کی شہرت اور اس سے انتفاع معروف و مشہور ہو۔

پس اگر آخر صدی نہیں پائی ہے یا اس سے اس زمانے میں انتفاع شریعت حاصل نہ ہوا ہو تو وہ مجددین کی صف سے خارج سمجھا جائے گا اور اس حدیث کا موردومصداق نہ ہوگا ۔اور اس کا شمار مجددین میں نہ ہوگا۔

(ماخوذ از مجموعۃ الفتاوی لمولانا عبدالحی لکھنویؒ، عنوان:مجددین کے شرائط وعلامات، حصہ:1، ص:116، ط:ایچ ایم سعید)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(وعنه) أي: عن أبي هريرة (فيما أعلم) : بضم الميم على الصحيح، (قال: إن الله عز وجل يبعث لهذه الأمة ") أي: أمة الإجابة، ويحتمل أمة الدعوة (على رأس كل مائة سنة) : أي: انتهائه أو ابتدائه إذا قل العلم والسنة وكثر الجهل والبدعة (من يجدد) : مفعول يبعث (لها) أي: لهذه الأمة (دينها) أي: يبين السنة من البدعة ويكثر العلم ويعز أهله ويقمع البدعة ويكسر أهلها. قال صاحب جامع الأصول: وقد تكلم العلماء في تأويله، وكل واحد أشار إلى العالم الذي هو في مذهبه، وحمل الحديث عليه، والأولى الحمل على العموم فإن لفظة " من " تقع على الواحد والجمع، ولا يختص أيضا بالفقهاء فإن انتفاع الأمة بهم، وإن كان كثيرا فانتفاعهم بأولي الأمر وأصحاب الحديث والقراء والوعاظ والزهاد أيضا كثير، إذ حفظ الدين وقوانين السياسة وبث العدل وظيفة أولي الأمر، وكذا القراء وأصحاب الحديث ينفعون بضبط التنزيل والأحاديث التي هي أصول الشرع وأدلته، والوعاظ ينفعون بالوعظ والحث على لزوم التقوى لكن المبعوث بشرط أن يكون مشارا إليه في كل فن من هذه الفنون. نقله السيد، وأغرب ابن حجر وحمل المجددين محصورين على الفقهاء الشافعية، وختمهم بشيخه الشيخ زكريا مع أنه غير معروف بتجديد فن من العلوم الشرعية، وشيخ مشايخنا السيوطي هو الذي أحيا علم التفسير المأثور في الدر المنثور، وجمع جميع الأحاديث المتفرقة في جامعه المشهور، وما ترك فنا إلا وله فيه متن أو شرح مسطور، بل وله زيادات ومخترعات يستحق أن يكون هو المجدد في القرآن المذكور كما ادعاه وهو في دعواه مقبول ومشكور، هذا والأظهر عندي والله أعلم أن المراد بمن يجدد ليس شخصا واحدا، بل المراد به جماعة يجدد كل أحد في بلد في فن أو فنون من العلوم الشرعية ما تيسر له من الأمور التقريرية أو التحريرية، ويكون سببا لبقائه وعدم اندراسه وانقضائه إلى أن يأتي أمر الله، ولا شك أن هذا التجديد أمر إضافي، لأن العلم كل سنة في التنزل، كما أن الجهل كل عام في الترقي، وإنما يحصل ترقي علماء زماننا بسبب تنزل العلم في أواننا، وإلا فلا مناسبة بين المتقدمين والمتأخرين علما وعملا وحلما وفضلا وتحقيقا وتدقيقا لما يقتضي البعد عن زمنه عليه الصلاة والسلام، كالبعد عن محل النور ويوجب كثرة الظلمة وقلة الظهور، ويدل عليه ما في البخاري عن أنس مرفوعا " «لا يأتي على أمتي زمان إلا الذي بعده شر منه» ". وما في الكبير للطبراني عن أبي الدرداء مرفوعا " «ما من عام إلا وينتقص الخير فيه ويزيد الشر» " وما في الطبراني عن ابن عباس قال: «ما من عام إلا ويحدث الناس بدعة ويميتون سنة حتى تمات السنن وتحيا البدع» . وهذه النبذة اليسيرة أيضا إنما هي من بركات علومهم ومددهم، فيجب علينا أن نكون معترفين بأن الفضل للمتقدمين رضي الله عنهم أجمعين إلى يوم الدين."

(کتاب العلم، ج:1، ص:322، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201764

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں