بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صفر کے آخری بدھ میں بیماری سے بچاؤ کے لیے خاص عمل کرنے کا حکم


سوال

میرے دادا جان صفر کے مہینے کے آخری بدھ چند مرتبہ یاسین شریف اور درود شریف پڑھ کر رات بھر عبادت کرکے صبح بواسیر کے مریضوں کو پانی دیا کرتے تھے۔ اب ان کے انتقال کے بعد یہ ذمہ داری مجھ پر آ گئی ہے تو میں جاننا چاہتا ہوں کیا ان کا یہ عمل صحیح تھا یا نہیں؟ اور مجھے یہ عمل کرنا چاہیے یا نہیں؟ اور جو لوگ پانی لے جاتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم کو الحمدللہ اللہ تعالی اس پانی کے ذریعے سے شفا دیتا ہے۔ برائے کرم مفتی صاحب اب بدھ کو چند ہی دن باقی ہے تو میں جاننا چاہتا ہوں کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟ تاکہ میں گھر والوں کے سامنے اسے بیان کر سکوں!

جواب

واضح رہے کہ ماہِ صفر کے آخری بدھ کے حوالے سے عوام الناس میں یہ مشہور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس روز مرض سے صحت پائی تھی، لوگ اس خوشی میں کھانا، شیرینی وغیرہ بھی تقسیم کرتے ہیں، اس حوالے سے جامعہ کے سابقہ فتاویٰ میں ہے:

’’ماہِ صفر کے آخری بدھ کے بارے میں لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اس روز آپ ﷺ مرض سے صحت یاب ہوگئے تھے؛ اس لیے عید کی طرح خوشیاں مناتے ہیں، خصوصًا مزدور طبقہ مالکان سے چھٹی مانگتا ہے، مٹھائی کے پیسے اور عیدی طلب کرتاہے، یہ محض بے اصل اور بدعت ہے، کھانے پینے کی غرض سے لوگوں نے اس کو ایجاد کیاہے۔

بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صفر کے آخر بدھ کو رسول اللہ ﷺ کے مرضِ وفات کی ابتدا ہوئی تھی۔ دیکھیے: تاریخ ابن اثیر، تاریخِ طبری، البدایہ و النہایہ۔

لہٰذا جن لوگوں میں یہ رواج جاری ہے، ان کو چایہے کہ اس بدعت کو چھوڑ دیں، شریعتِ اسلامیہ کے اَحکام کی پیروی کریں۔

شریعتِ اسلامیہ کے نزدیک ماہِ صفر بھی دوسرے مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے، ایامِ جاہلیت میں اس ماہ صفر کے بارے میں جو تصور تھا کہ یہ نحوست کا مہینہ ہے، اسلام نے اس کو رد کیا ہے، جیساکہ بخاری و مسلم اور دوسری کتب میں واضح الفاظ میں: ’’ لا صفر و لاطیرة‘‘ وغیرہ سے ایامِ جاہلیت کے عقائدِ فاسدہ کی سختی کے ساتھ تردید کی گئی ہے؛ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ اس بدعتِ قبیحہ کو ترک کردیں، اور ایسے عقائدِ فاسدہ سے توبہ کریں۔ فقط واللہ اعلم

کتبہ: محمد عبدالسلام عفااللہ عنہ (صفر 1408ھ)                                  الجواب صحیح: ولی حسن ٹونکی‘‘

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

’’ماہِ صفر کے آخری چار شنبہ کو خوشی کی تقریب منانا، مٹھائی وغیرہ تقسیم کرنا شرعًا بے دلیل ہے، اس تاریخ میں غسلِ صحت ثابت نہیں، البتہ شدتِ مرض کی روایت ’’مدارج النبوۃ‘‘ میں ہے۔ یہود کو آں حضرت ﷺ کے شدتِ مرض سے خوشی ہونا بالکل ظاہر ہے، اور ان کی عداوت و شقاوت کا تقاضا ہے۔‘‘

(فتاویٰ محمودیہ، کتاب العقائد، باب البدعات و الرسوم، مخصوص ایام کی مروج بدعات کا بیان، (3/279،280) ط: جامعہ فاروقیہ، کراچی)

لہٰذا اگر ماہِ صفر کے آخری بدھ اس نظریے کے تحت شفا یابی کے لیے کوئی عمل کیا جاتاہے تو یہ بے اَصل ہونے کے ساتھ قابلِ ترک ہے، اگر یہ عمل کرنے والا کا یہ نظریہ نہیں ہے، لیکن لوگوں کے ذہن میں یہ پہلو غالب ہے اور اس کی اصلاح مشکل ہے تو بھی اس سے اجتناب کیا جائے، بواسیر سے شفا کے لیے یہی عمل کسی اور دن (دن کو لازم سمجھے بغیر) کرلیا جائے۔ البتہ اگر عمل کرنے والے شخص کا نظریہ بھی یہ نہ ہو اور عرف میں بھی ماہِ صفر کے آخری بدھ کے حوالے سے رسم یا شفایابی کا نظریہ نہ ہو، بلکہ بطورِ تجربہ اس دن مخصوص اذکار پڑھ کر دم کرنے کے نتیجے میں لوگوں کو شفا ہورہی ہو اور اسے لازم بھی نہ سمجھا جائے اور اس عمل کے لیے اس دن کو مؤثر نہ سمجھا جائے تو آپ کے داداجان کا  بواسیر بیماری سے بچاؤ کے لیے یہ عمل ان کے مجربات میں سے ہے، اور ایسے مجربات جو  قرآنی تعلیمات کے خلاف نا ہوں  ازروئے شرع ان کا کرنا درست ہے، لہذا  اس صورت میں مذکورہ عمل کرکے پانی پر دم کرکے بطور علاج استعمال کرنا اور لوگوں کو دینا درست ہوگا۔

حجة الله البالغة  میں ہے:

"وَأما الرقي فحقيقتها التَّمَسُّك بِكَلِمَات لَهَا تحقق فِي الْمثل وَأثر، وَالْقَوَاعِد الملية لَا تدفعها مَا لم يكن فِيهَا شرك لَا سِيمَا إِذا كَانَ من الْقُرْآن أَو السّنة أَو مِمَّا يشبههما من التضرعات إِلَى الله".

(اللباس والزينة والأوانى وغيرها، ج:2، ص:300، ط:دارالجيل.بيروت)

الموسوعة الفقهية میں ہے:

"أَجْمَعَ الْفُقَهَاءُ عَلَى جَوَازِ التَّدَاوِي بِالرُّقَى عِنْدَ اجْتِمَاعِ ثَلاَثَةِ شُرُوطٍ: أَنْ يَكُونَ بِكَلاَمِ اللَّهِ تَعَالَى أَوْ بِأَسْمَائِهِ وَصِفَاتِهِ، وَبِاللِّسَانِ الْعَرَبِيِّ أَوْ بِمَا يُعْرَفُ مَعْنَاهُ مِنْ غَيْرِهِ، وَأَنْ يَعْتَقِدَ أَنَّ الرُّقْيَةَ لاَ تُؤَثِّرُ بِذَاتِهَا بَل بِإِذْنِ اللَّهِ تَعَالَى. فَعَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَال: كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقُلْنَا: يَا رَسُول اللَّهِ كَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ؟ فَقَال: اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ، لاَ بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ (2) وَمَا لاَ يُعْقَل مَعْنَاهُ لاَ يُؤْمَنُ أَنْ يُؤَدِّيَ إِلَى الشِّرْكِ فَيُمْنَعُ احْتِيَاطًا".

(باب التداوى بالرقى والتمائم، ج:11، ص:123، ط:دارالسلاسل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144202200764

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں