بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بتوں کے کاروبار کی کمائی حلال نہیں


سوال

 میرے والد بتوں کا کاروبار کرتے ہیں اور اس طرح میرے خاندان کے لیے حرام کما رہے ہیں۔ اگرچہ بتوں کے ساتھ معاملہ نہ کرنے کی میری نصیحت کے بعد بھی وہ خود کو ان سے باز نہیں رکھتا۔ اب جب کہ میں اپنی زندگی الگ سے گزارنے کے قابل ہوں، تو کیا مجھے اپنے خاندان سے الگ ہونے کی اجازت ہے؟ اور ظاہر ہے، میرے گھر والے اسے پسند نہیں کریں گے۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کے والد اگر بتوں کے کاروبار سے باز نہیں آتے ، اور سائل   عاقل بالغ ہے  اور اپنا ذاتی حلال مال موجود ہے تو سائل  کے لیے والد کی حرام  آمدنی اور اس سے خریدی گئی اشیاء کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے، اور اگر سائل  کمانے پر قادر نہیں ہیں تو حلال مال کے حصول تک والد کی مذکورہ آمدن استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی۔

سنن ابی داود میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله، أنه سمع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول عام الفتح وهو بمكة: إن الله عز وجل حرم بيع الخمر والميتة والخنزير والأصنام " فقيل: يا رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، أرأيت شحوم الميتة، فإنه يطلى بها السفن ويدهن بها الجلود، ويستصبح بها الناس؟ فقال: "لا، هو حرام" ثم قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عند ذلك: "قاتل الله اليهود! إن الله لما حرم عليهم شحومها، أجملوه ثم باعوه، فأكلوا ثمنه."

(باب في ثمن الخمر والميتة، جلد۵، ص:۳۵۱، دار الرسالۃ العالمیۃ)

عمدۃ القاری میں ہے:

"والإجماع قائم على أنه لا يجوز بيع الميتة والأصنام لأنه لا يحل الانتفاع بها ووضع الثمن فيها إضاعة مال وقد نهى الشارع عن إضاعته قلت على هذا التعليل إذا كسرت الأصنام وأمكن الانتفاع برضاضها جاز بيعها عند بعض الشافعية وبعض الحنفية."

(کتاب البیوع، باب بیع المیتۃ والأصنام، ج:12، ص:55، دار إحیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101160

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں