بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بت خانے میں مسلم عورت کا غیر مسلم لڑکے سے شادی کرنا اور لڑکی کے انتقال کے بعد اس کی نمازِ جنازہ کا حکم


سوال

ایک مسلمہ لڑکی نے غیر مسلم لڑکے سے بت خانے میں شادی کی ،پھر کچھ عرصے بعد اس کی موت ہو گئی ،تو اس عورت کی نماز جنازہ کا کیا حکم ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ مسلمہ لڑکی  نے غیر مسلم لڑکے کے مذہب کو قبول کرلیا تھا اور اسلام سے مرتد ہوگئی تھی اور ایسی حالت میں اس کا انتقال ہوا ، تو اس عورت کی نمازِ جنازہ اداء نہیں کی جائے گی ، اور مسلمانوں کے قبرستان میں بھی دفن نہیں کیا جائے گا ، اور اگر مسلمہ لڑکی اسلام پر باقی تھی ، لیکن غیر مسلم لڑکے سے بت خانے میں جاکر شادی کی تو وہ کبیرہ گناہ کی مرتکب ہے ، لیکن اسلام سے خارج نہیں ہوئی ، لہذا ایسی عورت کے انتقال کے بعد جنازہ کی نماز پڑھنا لازم ہے ، البتہ ایسی عورت کے جنازہ میں قوم کے مقتدا  لوگوں کو شامل نہیں ہونا چاہیے۔

"مصنف عبد الرزاق" میں ہے:

"عن عمرو بن يحيى قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على ولد الزنا ‌وأمه ‌ماتت ‌في ‌نفاسها."

(كتاب الجنائز، باب الصلاة على ولد الزنا والمرجوم والسبي، رقم الحدیث:6816، ج:4، ص:251، ط:دار التأصيل)

"الفتاوى الهندية" میں ہے:

"ولا يجوز تزوج المسلمة من مشرك ولا كتابي، كذا في السراج الوهاج."

(كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات،القسم التاسع المحرمات بالطلقات، ج:1، ص:282، ط:رشيدية)

"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" میں ہے:

"ومنها: إسلام الرجل إذا كانت المرأة مسلمةً فلايجوز إنكاح المؤمنة الكافر؛ لقوله تعالى: {وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا} [البقرة: 221] ولأن في إنكاح المؤمنة الكافر خوف وقوع المؤمنة في الكفر؛ لأن الزوج يدعوها إلى دينه، والنساء في العادات يتبعن الرجال فيما يؤثرون من الأفعال ويقلدونهم في الدين إليه وقعت الإشارة في آخر الآية بقوله عز وجل: {أُولَٰئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ} [البقرة: 221] لأنهم يدعون المؤمنات إلى الكفر، والدعاء إلى الكفر دعاء إلى النار؛ لأن الكفر يوجب النار، فكان نكاح الكافر المسلمة سببًا داعيًا إلى الحرام فكان حرامًا، والنص وإن ورد في المشركين لكن العلة، وهي الدعاء إلى النار يعم الكفرة، أجمع فيتعمم الحكم بعموم العلة فلايجوز إنكاح المسلمة الكتابي كما لايجوز إنكاحها الوثني والمجوسي؛ لأن الشرع قطع ولاية الكافرين عن المؤمنين بقوله تعالى: {وَلَن يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلً} فلو جاز إنكاح الكافر المؤمنة لثبت له عليها سبيل، وهذا لايجوز".

(كتاب النكاح، فصل إسلام الرجل إذا كانت المرأة مسلمة، ج:2، ص:271، ط:دار الكتب العلمية)

وفيه إيضا:

"فكل ‌مسلم ‌مات ‌بعد ‌الولادة يصلى عليه صغيرا كان، أو كبيرا، ذكرا كان، أو أنثى، حرا كان، أو عبدا إلا البغاة وقطاع الطريق، ومن بمثل حالهم لقول النبي: صلى الله عليه وسلم صلوا على كل بر وفاجر."

(كتاب الصلاة، فصل بيان فريضة صلاة الجنازة، ج:1، ص:311، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144501100318

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں