بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بس نہ ملنے کی وجہ سے جمعہ ترک کرنا


سوال

میں سیالکوٹ   میں ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں لیکچرار ہوں،  ہر جمعہ کو اپنے گھر جاتا ہوں اور سوموار کو واپس آ جاتا ہوں،  سیالکوٹ سے  ڈائریکٹ ایک ہی گاڑی میرے گھر  کی طرف جاتی ہے،  اور اس کا وقت دن  1:45 بجے کا ہے،  جس کی وجہ سے میں جمعہ کی نماز ادا نہیں کر پاتا ہوں،  یونیورسٹی کے قریب کسی مسجد میں بھی جلدی  جمعہ نہیں ہوتا،  تمام مساجد  میں  1:25-2:00 بجے تک جمعہ کی نماز ہوتی ہے۔  اور  راستے  میں گاڑی والے نماز کے لیے گاڑی نہیں روکتے ہیں۔ برائے مہربانی مجھے اس مسئلے کے بارے میں تفصیل سے  آگاہ کریں!

جواب

بصورتِ  مسئولہ اگر  سیالکوٹ آپ کا وطنِ اصلی یا وطنِ اقامت نہیں ہے، (یعنی آپ نے وہاں اہلِ خانہ کے  ساتھ مستقل رہائش اختیار نہیں کی، اور نہ ہی اب تک یونیورسٹی میں  ایک ساتھ  پندرہ دن یا اس سے زیادہ اقامت کی نیت سے ٹھہرے ہیں)     اور سیالکوٹ شہر آپ کے گاؤں سے مسافتِ سفر پر واقع ہے، (کلومیٹر کے حساب سے سفر کی شرعی مسافت 77.24 کلو میٹر ہے) ، اور وہاں  آپ کا   ہر  ہفتے  چار پانچ دن کا ہی قیام ہوتا ہے ، تو  اس صورت میں آپ مسافر کے حکم میں  ہیں، اور آپ پر شرعًا جمعہ واجب نہیں ہے، بلکہ  ظہر کی قصر نماز  پڑھ  سکتے  ہیں  ۔

"الظهر لهم رخصة فدل علی أن الجمعة عزيمة وهي أفضل ..." الخ (٢/ ١٥٥)

لیکن اگر آپ وہاں شرعی مسافر نہیں ہوتے تو ایسی صورت میں آپ پر شرعًا جمعہ واجب ہے ، آپ کے  لیے ضروری ہے کہ وہاں سے جمعہ  پڑھ کر نکلیں  ،  ڈائریکٹ گاڑی کا نہ ملنا  شرعی  عذر نہیں ہے،  اور بلاعذر  جمعہ کی نماز ترک کرنے  والا سخت گناہ گار ہے،  احادیثِ  مبارکہ  میں جمعہ کی نماز چھوڑنے والوں سے متعلق سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ، چنانچہ مشکاۃ شریف کی روایت میں ہے:

’’ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں راوی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے منبر کی لکڑی  (یعنی اس کی سیڑھیوں) پر یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگ نمازِ جمعہ کو چھوڑنے سے باز رہیں،  ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا اور وہ غافلوں میں شمار ہونے لگیں گے‘‘۔

نیز ایک دوسری روایت میں ہے :

’’ حضرت  ابو الجعد ضمیری راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو آدمی محض سستی و کاہلی کی بنا پر تین جمعے چھوڑ دے گا،  اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگائے دے گا‘‘۔

(سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 200094

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں