بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بس (BUS) اور کار (CAR) وغیرہ پر نماز پڑھنے کا تفصیلی حکم


سوال

اگر چلتی بس میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ اگر قبلہ رخ اور قیام کے ساتھ ادا کی جائے؟  اگر قیام کی حالت تو میسر ہو، مگر قبلہ رخ میسر نہ ہو ؟  اگر قبلہ رخ میسر ہو مگر قیام نہ مل سکے ؟ 

 

جواب

1۔واضح رہے کہ فرض نماز  کی ادائیگی کے لیے قیام ضروری ہے، اگر تن درست آدمی بیٹھے بیٹھے نماز پڑھے تو نماز درست نہ  ہوگی، نیز نماز کی درستگی کے لیے قبلہ رخ ہونا ضروری ہے، اگر کوئی شخص قبلہ رُو ہوئے بغیر نماز پڑھے گا تو اس کی نماز نہ ہوگی۔

"بس"  میں نماز پڑھنے کے بارے میں  تفصیل یہ  ہے کہ اگر ڈرائیور وقت کے اندر بس روک کر مسافروں کو نماز پڑھانے کا اہتمام کرتا ہے تو بس میں فرض نماز نہ پڑھی جائے، لیکن بس ڈرائیورنمازوں کے لیے بس نہ روکے اور نماز کا وقت نکل رہا ہو اور بس کے اندر  قبلہ رُخ ہوکر قیام، رکوع اور سجدے کے ساتھ نماز ادا کی جاسکتی ہے تو کھڑے ہو کر اوّل سے آخر تک قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھے، اگر ابتداء  میں قبلہ رخ ہوکر نماز شروع کی ، بعد میں بس قبلہ رخ سے پھر گئی  اور نماز پڑھنے والے کو معلوم تھا اور اس نے اپنا رخ قبلہ کی طرف نہیں کیا تو نماز ٹوٹ جائے گی، لیکن اس صورت میں اگرقیام(کھڑے ہونے) کے لیے سہارا لینا پڑے تو اس کی اجازت ہوگی، اگرپورے قیام کے دوران سہارا لینا پڑے اور ہاتھ نہ باندھ سکے تب بھی قیام نہ چھوڑے ، سہارا لے کرقیام ، رکوع اورسجدےکے ساتھ نماز ادا کرے۔ اگر بس کے زیادہ حرکت کرنے یاچکرآنے کی وجہ سے قیام نہ کرسکے تواسی راہ داری میں بیٹھ کربس کے فرش(زمین) پرسجدہ کرتے ہوئے نماز اداکرے۔

اور اگر بس میں  قیام ہی ممکن نہ ہو، یا قیام تو ممکن ہو لیکن قبلہ رخ نہ ہوسکے، یا سجدہ نہ کیا جاسکتاہو،  اور نماز کا وقت نکل رہا ہو تو فی الحال "تشبہ بالمصلین" (نمازیوں کی مشابہت اختیار) کرتے ہوئے نماز پڑھ لے ،یعنی بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھے،  پھر جب گاڑی سے اتر جائے تو فرض اور وتر کی ضرور قضا کرے۔

مندرجہ بالا حکم فرض نماز کا ہے، نفل نماز سواری  میں بیٹھ کر پڑھنے کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ کسی شہر  یا بستی کی آبادی کے مکانات سے نکلنے کے بعد  دورانِ سفر  جس رخ پر سواری جارہی ہو اس رخ پر نفل نماز پڑھنا  مطلقاً جائز ہے، خواہ قبلہ رو ہو یا نہ ہو،  مگر اس سے وہ سواری مراد ہے جس میں چلتے ہوئے قبلہ رخ نماز پڑھنے کی رعایت نہ رکھی جاسکتی ہو، جیسے اونٹ اورکار  وغیرہ؛ لیکن اگر سواری وسیع ہو، جیسے: ریل تو اس میں نمازِ نفل کے لیے بھی قبلہ رخ ہونا ضروری ہوگا؛ کیوں کہ اس میں قبلہ کا لحاظ کرنا متعذر نہیں ہے، تاہم شہر کی حدود کے اندر  سواری پر نفل پڑھنا جائز نہیں ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"وفي الخلاصة: وفتاوی قاضیخان وغیرهما: الأیسر في ید العدو إذا منعه الکافر عن الوضوء والصلاة یتیمم ویصلي بالإیماء، ثم یعید إذا خرج … فعلم منه أن العذر إن کان من قبل الله تعالی لاتجب الإعادة، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادة". 

(کتاب الطهارة، باب التیمم: ج:1، ص:142، ط: رشیديه) 

وفي الدر المختار :

"(وأما في النفل فتجوز على المحمل والعجلة مطلقاً).

 وفي الرد:

(قوله: مطلقاً) أي سواء كانت واقفةً أو سائرةً على القبلة أو لا، قادر على النزول أو لا، طرف العجلة على الدابة أو لا".

(کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل: ج:2، ص:41، ط: سعید)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ومن أراد أن يصلي في سفينة تطوعاً أو فريضةً فعليه أن يستقبل القبلة، ولا يجوز له أن يصلي حيثما كان وجهه. كذا في الخلاصة. حتى لو دارت السفينة وهو يصلي توجه إلى القبلة حيث دارت. كذا في شرح منية المصلي لابن أمير الحاج".

(کتاب الصلاۃ، الفصل السادس في استقبال القبلة: ج:1، ص:64، ط: حقانیة)

وفي الدر المختار :

"(و) يتنفل المقيم (راكباً خارج المصر) محل القصر (مومئاً) فلو سجد اعتبر إيماء؛ لأنها إنما شرعت بالإيماء (إلى أي جهة توجهت دابته)، ولو ابتداءً عندنا أو على سرجه نجس كثير عند الأكثر، ولو سيرها بعمل قليل لا بأس به.

وفي الرد:

(قوله: ويتنفل المقيم راكباً إلخ) أي بلا عذر، أطلق النفل فشمل السنن المؤكدة إلا سنة الفجر، كما مر، وأشار بذكر المقيم أن المسافر كذلك بالأولى؛ واحترز بالنفل عن الفرض والواجب بأنواعه كالوتر والمنذور، وما لزم بالشروع، والإفساد، وصلاة الجنازة، وسجدة تليت على الأرض، فلا يجوز على الدابة بلا عذر؛ لعدم الحرج، كما في البحر. (قوله: راكباً) فلا تجوز صلاة الماشي بالإجماع، بحر عن المجتبى. (قوله: خارج المصر) هذا هو المشهور. وعندهما يجوز في المصر، لكن بكراهة عند محمد؛ لأنه يمنع من الخشوع، وتمامه في الحلية. (قوله: محل القصر) بالنصب بدل من خارج المصر. وفائدته شمول خارج القرية وخارج الأخبية ح: أي المحل الذي يجوز للمسافر قصر الصلاة فيه، وهو الصحيح، بحر. وقيل: إذا جاوز ميلاً، وقيل: فرسخين أو ثلاثة، قهستاني".  

(کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل: ج:2، ص:38، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144402100523

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں