بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بری میں ملنے والا سونےاور جہیز کے نام پر دئے گئےپیسوں کا حکم


سوال

1):۔شادی بیا ہ کے موقع پر میری بیٹی کو سسرال نے جو زیورات دیے  تھے،  اب وہ  طلاق کے بعد وہ واپس  مانگ  رہے ہیں، جب کہ پیچھےایک موقع  پر خاندان میں جھگڑے کے دوران ہم نے واپس کرنا چاہے تو انہوں نے کہا ہمیں نہیں چاہیے یہ آپ کی بیٹی کا ہے،  اب وہ کہہ رہے ہیں کہ اس زیوارت کا زکوۃ ہمارا بیٹا ادا کرتا رہا ہے، اس لیے وہ زیورات ہمارے ہیں،  شرعی راہ نمائی کریں کہ وہ میری بیٹی کے ہیں یا سسرال والوں کے؟

2):۔ سسرال میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے بیٹی کو سات لاکھ جہیز کے نام پر دئے تھے، جو اس کے شوہر نے لے لیے تھے، اس رقم سے بیٹی کے لیے کوئی سامان نہیں لیا،اس رقم کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

1):۔شادی کے موقع پر یعنی بری میں دیئے گئے زیورات کے  بارے  میں یہ تفصیل ہے کہ اگرلڑکے  والوں نے صراحت کی تھی  کہ یہ صرف استعمال کے لیے ہیں ،تو پھر یہ لڑکے والوں  کی ملکیت  ہوں گے، اور اگرلڑکے والوں نے ہبہ (گفٹ) اور  مالک بناکر دینے  کی صراحت         کردی تھی  تو پھر اس  زیورات  کی مالک  لڑکی ہوگی، اور اگر کوئی صراحت  نہیں  کی تھی تو پھر  شوہر کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا،اگر بطورِ ملک دینے کا عرف ہے تو لڑکی مالک ہوگی،   اور اگر  بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو پھرلڑکے والے ہی مالک ہوں گے،لیکن اگر  شوہر  کے خاندان کا کوئی  عرف اور واضح رواج   نہ ہو تو پھرظاہر کا اعتبار  کرتے  ہوئے یہ  زیورات   گفٹ سمجھے جائیں گے، اور یہ لڑکی کی  ملکیت   ہوں گے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً   سائل مذکورہ زیورات  واپس کررہے تھے،اور سسرال والوں کی طرف سے یہ کہا گیا کہ یہ آپ کی بیٹی کا ہے، تو  یہ زیورات  سائل کی بیٹی کی ملکیت شمار ہوں گے، سسرال والوں کامطالبہ کرنا درست نہیں۔

2):۔جہیز کے نام پر  جو پیسے دیے گئےتھے،  اس کی مالک سائل کی  بیٹی تھی، اگر شوہر نے وہ رقم لی ہے تو اس کے ذمہ اس کا لوٹانا لازم ہے۔

فتاوی شامی  میں ہے:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة." 

(کتاب النکاح، باب المهر، ج 3، ص 153، ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"والمعتمد البناء على العرف كما علمت."

(کتاب النکاح، باب  المهر، ج 3، ص 157، ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"کل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها."

(کتاب النکاح ،باب المھر ، ج:3،ص:158، ط:سعید)

وفیہ أیضاً:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

(کتاب الھبة، ج:5، ص:690، ط : سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية."      

(کتاب النکاح، باب المهر، الفصل السادس عشر فی جهاز البنت، ج 1، ص 327، ط: رشیدیة)

دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"الهدايا التي تأتي في الختان أو الزفاف تكون لمن تأتي باسمه من المختون أو العروس أو الوالد والوالدة وإن لم يذكر أنها وردت لمن ولم يمكن السؤال والتحقيق فعلى ذلك يراعى عرف البلدة وعادتها...... بل ترسل على طريق الهبة والتبرع فحكمها كحكم الهبة ولا رجوع بعد الهلاك والاستهلاك والأصل في هذا الباب هو أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا."

(الكتاب السابع الهبة، الباب الثاني في بيان احكام الهبة، ج:2، ص:482، ط:دار الجيل)

الموسوعة الفقهية میں ہے:

"الجهاز بالفتح، و الكسر لغة قليلة، و هو اسم … لما تزف به المرأة إلى زوجها من متاع ...ذهب جمهور الفقهاء إلى أنه لايجب على المرأة أن تتجهز بمهرها أو بشيء منه، و على الزوج أن يعد لها المنزل بكل ما يحتاج إليه ليكون سكنًا شرعيًّا لائقًا بهما. و إذا تجهزت بنفسها أو جهزها ذووها فالجهاز ملك لها خاص بها."

(‌‌جهاز، ج: 16، ص: 166،165 ط:  دار السلاسل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101133

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں