میری والدہ عمر رسیدہ ہیں ، ماشاء اللہ سے کافی عمر ہو گئی ہے ان کی،( تقریباً 80 سال عمر ہو گی ) تو وہ روزہ نہیں رکھ سکتیں، گزشتہ سال بھی ہم نے فدیہ دیا تھا، اب اس سال بھی فدیہ دینے کا ارادہ ہے، اس بارے میں ہمیں بتا دیں؟
واضح رہے کہ روزےکا فدیہ اُس شخص پر ہوتا ہے جو نہ تو فی الحال روزہ رکھنے پر قادر ہے اور نہ آئندہ موت تک اُس کو یہ امید ہو کہ وہ روزہ رکھ سکےگا، جیسا کہ شیخِ فانی (بڑی عمر کا ایسا شخص جس کی موت ظاہراً قریب ہو)۔لہذا اگر سائل کی والدہ عمر رسیدہ اور بیمار ہیں جس کی وجہ سے روزہ رکھنے پر بالکل قادر نہیں، یعنی سال کے مختصر اور ٹھنڈے ایام میں بھی روزے کی قضا نہیں کرسکتا، تو ایسی صورت میں اس کے لیے روزوں کا فدیہ ( رمضان کے شروع ہونے کے بعد یا آخر جب بھی دینا چاہے ) دینے کی اجازت ہوگی۔تاہم فدیہ ادا کرنے کے بعد اگر موت سے پہلے روزہ رکھنے کی طاقت حاصل ہو جائے اور وقت بھی ملے تو ان روزوں کی قضا کرنا ضروری ہوگا، اور فدیہ صدقۂ نافلہ سے تبدیل ہوجائے گا۔
اور ایک روزے کا فدیہ ایک صدقۃ الفطر کے برابر یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی موجودہ قیمت ہے۔ لہذا مہینے میں جتنے روزے ہوں 29 یا 30 اتنے ہی فدیہ ادا کرنے ہوں گے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي) وجوباً، ولو في أول الشهر."
(رد المحتار2/ 427ط:سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما وجوب الفداء: فشرطه العجز عن القضاء عجزا لا ترجى معه القدرة في جميع عمره فلا يجب إلا على الشيخ الفاني، ولا فداء على المريض والمسافر ولا على الحامل والمرضع وكل من يفطر لعذر ترجى معه القدرة لفقد شرطه وهو العجز المستدام، وهذا لأن الفداء خلف عن القضاء، والقدرة على الأصل تمنع المصير إلى الخلف كما في سائر الأخلاف مع أصولها، ولهذا قلنا: إن الشيخ الفاني إذا فدى ثم قدر على الصوم بطل الفداء."
(كتاب الصوم، فصل حكم الصوم المؤقت إذا فات عن وقته، 105/2، ط: سعيد)
و فیہ ایضاً:
"وأما بيان شرائط وجوبه فمنها القدرة على القضاء حتى لو فاته صوم رمضان بعذر المرض أو السفر ولم يزل مريضا أو مسافرا حتى مات لقي الله ولا قضاء عليه، لأنه مات قبل وجوب القضاء عليه، لكنه إن أوصى بأن يطعم عنه صحت وصيته وإن لم يجب عليه، ويطعم عنه من ثلث ماله لأن صحة الوصية لا تتوقف على الوجوب كما لو أوصى بثلث ماله للفقراء أنه يصح، وإن لم يجب عليه شيء كذا هذا فإن برئ المريض أو قدم المسافر وأدرك من الوقت بقدر ما فاته يلزمه قضاء جميع ما أدرك، لأنه قدر على القضاء لزوال العذر، فإن لم يصم حتى أدركه الموت فعليه أن يوصي بالفدية وهي أن يطعم عنه لكل يوم مسكينا لأن القضاء قد وجب عليه ثم عجز عنه بعد وجوبه بتقصير منه فيتحول الوجوب إلى بدله وهو الفدية."
(كتاب الصوم، فصل حكم الصوم المؤقت إذا فات عن وقته، 103/2، ط: سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولو قدر على الصيام بعد ما فدى بطل حكم الفداء الذي فداه حتى يجب عليه الصوم هكذا في النهاية."
(كتاب الصوم، الباب الخامس في الأعذار التي تبيح الإفطار، 207/1، ط: رشيدية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144508102365
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن