بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بڑھاپے میں بیوی کو تین طلاق دینا اور تین طلاق کے بعد بچوں کے ساتھ رہنا


سوال

 ایک بزرگ شخص(55) نے اپنی بیوی (50) کو نشہ کی حالت میں دو طلاق دی، اور اسی وقت تیسری طلاق بھی دی، جس کے گواہ دو مرد اور تین خواتین ہیں۔ مجھے یہ جاننا ہے کہ عورت اور شوہر میں جدائی ہوجائے گی؟ اور کیا کوئی صورت ہے کہ جس میں پھر سے وہ دونوں میاں بیوی بن سکیں؟ میاں بیوی دونوں کی عمر کافی ہے، اس صورت میں اگر جدائی ہوجائے تو پھر بال بچوں کا کیا بنے گا، جوان جوان بچے بچیاں ہیں؟ اور کیا ایسا ممکن ہے کہ بیک وقت کے تین طلاق کو ایک ہی مانا جائے جیسے کہ کچھ خاص مسلک میں گنجائش ہے۔ اس طرح پورا خاندان تباہی سے بچ جائے گا؟

جواب

واضح رہے کہ جمہور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعینِ کرام اور تبع تابعین رحمہم اللہ اور بالخصوص ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کی تصریحات  کے مطابق ایک مجلس میں دی جانے والےتین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں، تین طلاقوں کو ایک قرار دینا صریح گم راہی ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ شخص نے اپنی بیوی  کو  تین طلاقیں دے دی ہیں تو بیوی پر  اسی وقت  تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں، نکاح ختم ہوگیا ہے، اور بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اس کے بعد شوہر کا رجوع کرنا جائز نہیں ہے، نیز تین طلاق واقع ہونے کے بعد ایک طلاق کا فتویٰ لینے سے بیوی حلال نہیں ہوتی۔

ہاں! اگر  عورت عدت گزارنے کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کرے، پھر وہ اس سے ہم بستری کرنے کے بعد از خود  طلاق دے دے یا مرجائے  تو پھر یہ عورت اس دوسرے شوہر کی  عدت گزار کر پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔

         نیز تین طلاقوں کے بعد  دونوں کا ایک ساتھ رہنا شرعا جائز نہیں ہے،  البتہ اگر  مذکورہ شخص  اور اس کی (سابقہ) بیوی دونوں عمر رسیدہ ہو جانے کی وجہ سے تنہا نہیں رہ سکتے ہوں اور  ان کا  مکان اتنا بڑاہے کہ دونوں اس میں اپنے جوان اولاد کے ساتھ پردہ کا خیال کرتے ہوئے  اجنبیوں کی طرح الگ الگ اس طرح رہ  سکتے ہوں کہ دونوں کے کمرے الگ ہوں، اور ان کا آمنا سامنا نہ ہو، اور گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو مذکورہ طریقہ سے وہ ایک مکان میں  اپنی جوان اولاد کے ساتھ رہ سکتے ہیں، دونوں کا تنہا ایک گھر میں رہنا کسی بھی صورت میں درست نہیں  ہے،  اور اگر مذکورہ مکان میں بھی  دونوں شرعی پردہ کے ساتھ نہیں رہ سکتے،  یا دونوں کے  گناہ میں مبتلا  ہوجانے کا اندیشہ ہو تو  ایسی صورت میں بالکل علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہے، اور ایک مکان  میں رہنا جائز  نہیں ہوگا۔

المعجم الكبیرللطبرانی میں ہے:

"عن  ابن مسعود : قلت: يا رسول الله، هل للساعة من علم تعرف به الساعة؟ فقال لي: «يا ابن مسعود، إن للساعة أعلامًا، وإن للساعة أشراطًا، ألا وإن من أعلام الساعة وأشراطها أن يكون الولد غيظًا، وأن يكون المطر قيظًا، وأن تفيض الأشرار فيضًا، ..... يا ابن مسعود، إن من أعلام الساعة وأشراطها أن يكثر أولاد الزنى». قلت: أبا عبد الرحمن، وهم مسلمون؟ قال: نعم، قلت: أبا عبد الرحمن، والقرآن بين ظهرانيهم؟ قال: «نعم» ، قلت: أبا عبد الرحمن، وأنى ذاك؟ قال: «يأتي على الناس زمان يطلق الرجل المرأة، ثم يجحد طلاقها فيقيم على فرجها، فهما زانيان ما أقاما»".(5/ 161، 162،  دارالکتب العلمیة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

(3/187، فصل في حكم الطلاق البائن، کتاب الطلاق، ط؛ سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولهما أن يسكنا بعد الثلاث في بيت واحد إذا لم يلتقيا التقاء الأزواج، ولم يكن فيه خوف فتنة انتهى.

وسئل شيخ الإسلام عن زوجين افترقا ولكل منهما ستون سنة وبينهما أولاد تتعذر عليهما مفارقتهم فيسكنان في بيتهم ولا يجتمعان في فراش ولا يلتقيان التقاء الأزواج هل لهما ذلك؟ قال: نعم، وأقره المصنف.

(قوله: وسئل شيخ الإسلام) حيث أطلقوه ينصرف إلى بكر المشهور بخواهر زاده، وكأنه أراد بنقل هذا تخصيص ما نقله عن المجتبى بما إذا كانت السكنى معها لحاجة، كوجود أولاد يخشى ضياعهم لو سكنوا معه، أو معها، أو كونهما كبيرين لا يجد هو من يعوله ولا هي من يشتري لها، أو نحو ذلك."

(3/538، باب  العدۃ، ط؛ سعید)

 فقط والله اعلم

ایک مجلس کی تین طلاق سے متعلق تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر تفصیلی فتوی ملاحظہ فرمائیں:

تین طلاق ایک مجلس میں دینا


فتوی نمبر : 144203201535

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں