میری عمر 64 سال ہے، ایک سال پہلے میری بیوی کا انتقال ہو گیا۔کیا میں نکاح کر سکتا ہوں؟
واضح رہے کہ نکاح کے معاملہ میں شرعاًعمر کی کوئی تحدید نہیں،عمر کے جس حصے میں بھی آدمی نکاح کرنا چاہےتو کرسکتا ہےبشرط یہ کہ بیوی کے حقوق(مہر،نان ونفقہ،جنسی ضرورت وغیرہ ) ادا کرسکتا ہوں،البتہ اگر کوئی مرد بڑھاپے کی وجہ سے بیوی کی جنسی ضرورت کو پورا کرنے پر قادر نہ ہو تواس کے لیے جوان عورت سے شادی کرنا درست نہیں کہ نکاح کے من جملہ مقاصد میں سے جنسی خواہش کی تکمیل بھی ہے،اور جنسی خواہش کے پورا نہ ہونے کی صورت میں عورت کے فتنہ میں پڑنے کاا ندیشہ ہے،چناں چہ ایسا شخص اگر نکاح کرنا چاہتا ہو(کہ خدمت وغیرہ کی ضرورت ہو)تو ایسی عورت سے نکاح کرے جو عمررسیدہ ہو اور اس میں جنسی رغبت نہ ہونے کے برابر ہو۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے 64 سال کی عمر میں نکاح کرنا جائز ہے،بشرط یہ بیوی کے حقوق ادا کرنے کی استطاعت ہو۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: ومكروها) أي تحريما بحر (قوله: فإن تيقنه) أي تيقن الجور حرم؛ لأن النكاح إنما شرع لمصلحة تحصين النفس، وتحصيل الثواب، وبالجور يأثم ويرتكب المحرمات فتنعدم المصالح لرجحان هذه المفاسد."
(كتاب النكاح، ج:3، ص:7، ط:سعيد)
وفيه ايضاً:
"ولا يزوج ابنته الشابة شيخا كبيرا ولا رجلا دميما ويزوجها كفؤا."
(كتاب النكاح، ج:3، ص:9، ط:سعيد)
آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:
”سوال: ایک ۷۰ سالہ شخص نے بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی کر لی ، کچھ لوگوں کو اعتراض تھا کہ عمر کے اس حصے میں شادی مناسب نہیں ، جبکہ دیگر معاشروں میں اس کی اجازت ہے، کیا اسلام نے اس کی اجازت دی ہے؟
جواب : نکاح تو آدمی جب چاہے کر سکتا ہے، اور یہ نکاح ضروری نہیں کہ جنسی خواہش کے لئے ہو، بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیماری کی حالت میں بیوی خدمت کرے گی ۔“
(دوسری شادی، ج:6، ص:278، ط:مکتبہ لدھیانوی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611102608
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن