بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بلوغت کے بعد لڑکی کی پرورش کا حقدار


سوال

میری ایک بہن ہے،ایک سال سے اس کا شوہر فوت ہوچکا ہے، اس کی ایک بیٹی ہے اس کی عمر آٹھ سال ہے، بہن اور بھانجی دونوں والد (نانا) صاحب کے ساتھ رہتے ہیں اور بچی کا دادا فوت ہوچکا ہے، بلوغت کے بعد بچی والدہ کے ساتھ رہے گی یا چاچو کے ساتھ ؟ کیا بچی کو اسلام نے کوئی اختیار دیا ہے وہ جس كے ساتھ رہنا چاہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی بھانجی  9 سال تک والدہ کی پرورش میں رہے گی اور جب نو سال کی ہوجائے تو بلوغت تک  اپنے چچا کے ساتھ رہے گی  اور بلوغت کے بعد اسے اختیار ہوگا جس کے پاس  چاہے رہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولا خيار للولد عندنا مطلقا) ذكرا كان، أو أنثى خلافا للشافعي. قلت: وهذا قبل البلوغ، أما بعده فيخير بين أبويه، وإن أراد الانفراد فله ذلك مؤيد زاده معزيا للمنية."

"(قوله: ولا خيار للولد عندنا) أي إذا بلغ السن الذي ينزع من الأم يأخذه الأب، ولا خيار للصغير لأنه لقصور عقله يختار من عنده اللعب، وقد صح أن الصحابة لم يخيروا. وأما حديث «أنه صلى الله عليه وسلم خير فلكونه قال: اللهم اهده» فوفق لا اختيارا لا نظر بدعائه عليه الصلاة والسلام، وتمامه في الفتح".

(كتاب الطلاق، باب الحضانۃ، ج:3، ص:568، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101928

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں