بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بلڈنگ کے مصلّیٰ میں عورتوں کی تراویح میں شرکت اور مصلیٰ میں اعتکاف کا حکم


سوال

کسی بلڈنگ کے گراؤنڈ فلور  پر ایک مصلّیٰ  ہے،  جس میں پانچ وقت کی نماز اور جمعہ ہوتا ہے ، جب کہ مصلّیٰ  کے اوپر پارکنگ اور فلیٹ بنے ہوئے ہیں ۔

1:  ایسے مصلّیٰ    میں  رمضان المبارک میں تراویح کی جماعت میں مردوں کے ساتھ کیا عورتوں کو بھی شریک کر سکتے  ہیں؟  جس کی صورت  یہ ہو کہ مصلّیٰ   سے  متصل  مدرسے میں  یا اوپر پارکنگ  میں اس  کا انتظام ہو جائے اور ان کا راستہ  بھی  مردوں سے الگ ہو۔

2: ایسی مسجدیا مصلّیٰ  میں سنت اعتکاف کی کیا حیثیت ہے ؟

جواب

1: صورت مسئولہ میں مذکورہ  مصلیٰ میں مردوں کے لیے  تراویح کی  جماعت کرانا اور اس میں مردوں کا شرکت کرنا جائز ہے، البتہ   عورتوں  کے لیے جماعت کے ساتھ  نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں جانا یا گھر سے باہر  کسی بھی جگہ جاکر باجماعت نماز میں شرکت کرنا مکروہ ہے، خواہ فرض نماز ہو  یا تراویح  کی جماعت ہو،  حضور ﷺ کے زمانہ میں  عورتیں مسجد میں نماز کے لیے آتی تھیں ،وہ بہترین زمانہ تھا، آپﷺ بنفسِ نفیس موجود تھے،  اور وحی کا نزول ہوتا تھا، اسلامی احکام نازل ہورہے تھے  اور عورتوں کے لیے بھی علمِ دین اور شریعت کے احکامات سیکھنا ضروری تھا، مزید یہ کہ آپ ﷺ کی  مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب بھی  عام مساجد سے کئی گنا زیادہ  تھا ،لیکن  اس وقت  بھی انہیں یہی حکم تھا کہ عمدہ لباس اور زیورات  پہن کر نہ آئیں اورخوشبو لگا کر نہ آئیں، نماز ختم ہونے کے فوراً بعد مردوں سے پہلے واپس چلی جائیں، اور ان پابندیوں کے ساتھ اجازت کے بعد بھی  آپ ﷺنے ترغیب یہی دی   کہ عورتوں کا گھر میں اور پھر گھر میں بھی اندر والے حصے میں  نماز پڑھنا مسجد نبوی میں نماز  پڑھنےسے افضل ہے۔

حضرت امّ حمید رضی اللہ عنہا نے بارگاہِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کا شوق ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:تمہارا شوق (اور دینی جذبہ) بہت اچھا ہے، مگر تمہاری نماز اندرونی کوٹھی میں کمرے کی نماز سے بہتر ہے، اور کمرے  کی نماز گھر کے احاطے  کی نماز سے بہتر ہے، اور گھر کے احاطے  کی نماز محلے  کی مسجد سے بہتر ہے، اور محلے  کی مسجد کی نماز میری مسجد (مسجدِ نبوی) کی نماز سے بہتر ہے۔

چناں چہ حضرت امّ حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نے فرمائش کرکے اپنے کمرے (کوٹھے) کے آخری کونے میں جہاں سب سے زیادہ اندھیرا رہتا تھا مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ) بنوائی، وہیں نماز پڑھا کرتی تھیں، یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا اور اپنے خدا کے حضور حاضر ہوئیں"۔(الترغیب و الترہیب:۱/۱۷۸)

آپ ﷺ کے  پردہ فرمانے کے بعد  جب حالات بدل گئے    اور صحابہ  کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے  اپنے زمانہ میں یہ دیکھا کہ عورتیں اب ان پابندیوں کا خیال نہیں کرتیں  تو   حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں   صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم  اجمعین  کی موجودگی میں عورتوں کو مسجد آنے سے منع کر دیا گیا، اور اس پر گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اتفاق ہوگیا،  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عورتوں کی جو حالت آج ہو گئی ہے وہ حالت اگر حضور  ﷺ کے زمانہ میں ہوئی ہوتی تو آپ  ﷺ عورتوں کو مسجد آنے سے منع فرما دیتے۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے   کہ  حضور ﷺ کے وصال کو زیادہ عرصہ  بھی نہیں گزرا  تھا۔  ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج خوب سمجھتی تھیں؛ اسی لیے فرمایا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتوں کی ایسی حالت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو آنے سے منع فرمادیتے۔

اس لیے موجودہ  پر فتن دور  میں خواتین کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ اپنے گھروں میں نماز اداکریں، یہی ان کے لیے زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے؛ لہذا  عورتوں کا گھر سے باہر جاکر مسجد ، مصلیٰ یا کسی بھی دوسری جگہ میں اجتماعی تراویح میں شریک ہونا درست نہیں۔

البتہ اگر اپنے گھر میں ہی تراویح کی جماعت ہورہی ہو اور گھر کا مرد ہی گھر میں  تراویح کی امامت کرے اور اس کے پیچھے کچھ مرد ہوں اور گھر کی ہی کچھ عورتیں پردے میں اس کی اقتدا میں ہوں، باہر سے عورتیں نہ آتی ہوں، اور امام عورتوں کی امامت کی نیت کرے تو اس طرح عورتوں کے لیے تراویح کی نماز میں شرکت کرنا  شرعاً درست ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں، اسی طرح اگر امام تنہا ہو یعنی اس کے علاوہ کوئی دوسرا مرد نہ ہو اور مقتدی سب عورتیں ہوں اور عورتوں میں امام کی کوئی محرم خاتون  یا بیوی بھی موجود ہواور  امام عورتوں کی امامت کی نیت بھی  کرے  تو اس صورت میں بھی تراویح درست ہے، گھر کی جو خواتین امام کے لیے نامحرم ہوں وہ پردہ کا اہتمام کرکے شریک ہوں۔

2: مردوں کے اعتکاف کے لیے مسجد شرعی کا ہونا ضروری ہے، مسجدِ شرعی جس جگہ پر قائم ہو وہ مقام زمین تا آسمان مسجد کے حکم میں ہوتا ہے، اس مقام پر مسجد کے علاوہ کچھ اور قائم کرنا، یا اس کے اوپر فیلٹس یا دوکانیں بنانا جائز نہیں ہوتا،بلڈنگوں میں نماز کے لیے جو جگہ قائم کی جاتی ہے، وہ مسجدِ  شرعی کے حکم میں نہیں ہوتی، اس کی شرعی حیثیت مصلیٰ  کی ہوتی ہے، جہاں با جماعت نماز ادا کرنے سے جماعت کا ثواب تو مل جاتا ہے، تاہم مسجد کی جماعت کا ثواب نہیں ملتا اور نہ وہاں اعتکاف درست ہے، لہذا  صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مصلیٰ میں  اعتکاف کرنے سے مسنون اعتکاف ادا  نہیں ہوگا۔

الدر المختار  مع  رد المحتار میں ہے:

"(ويكره حضورهن الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقا) ولو عجوزا ليلا (على المذهب) المفتى به لفساد الزمان، واستثنى الكمال بحثا العجائز والمتفانية (كما تكره إمامة الرجل لهن في بيت ليس معهن رجل غيره ولا محرم منه) كأخته (أو زوجته أو أمته، أما إذا كان معهن واحد ممن ذكر أو أمهن في المسجد لا) يكره بحر.

 (قوله: في المسجد) لعدم تحقق الخلوة فيه، ولذا لو اجتمع بزوجته فيه لا يعد خلوة كما يأتي رحمتي."

 (1 / 566، باب الإمامة، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"(هو) لغة: اللبث وشرعا: (لبث) بفتح اللام وتضم المكث (ذكر) ولو مميزا في (مسجد جماعة) هو ما له إمام ومؤذن أديت فيه الخمس أو لا. وعن الإمام اشتراط أداء الخمس فيه وصححه بعضهم وقال لا يصح في كل مسجد وصححه السروجي."

(2 / 440، باب الإعتكاف، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101348

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں