بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بلڈنگ ميں اگر اجتماعی كام كی ضرورت در پيش ہو تو اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟


سوال

 میرا ایک فلیٹ، ایک بلڈنگ میں گراؤنڈ فلور پر ہے، میں اس میں کبھی نہیں رہا اور نہ رہنے کی ضرورت پیش آئی، بلڈنگ والے اس کی مرمت کا کام کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ وہ بلڈنگ کئ  جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے، الحمد للہ میرے فلیٹ کا باہری حصہ ٹھیک ہے، بلڈنگ والوں نے ہر ایک رہنے والے مکین پر ایک رقم طے کی ہے، مگر میرا ارادہ کوئی رقم دینے کا نہیں ہے، اس وجہ سے کے وہ فلیٹ جب سے بنا ہے، میں اس میں کبھی نہیں رہا اور نہ آئندہ   رہنے کا کوئی ارادہ ہے، بلڈنگ والے مجھ پر زبردستی کر رہے ہیں کہ تمہیں وہ رقم دینی ہی پڑے گی، میں نے کہا کہ آپ لوگ میرے فلیٹ کے باہری حصہ کی مرمت نہ کرو، جب مرمت نہیں تو رقم بھی نہیں، مگر اسی بلڈنگ میں ایک دین دار شخص رہتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک مشترکہ کام ہے، اگر آپ کی سائڈ  والا حصہ کی مرمت نہ ہوئی ،تو پوری بلڈنگ کی جو مضبوطی مطلوب ہے وہ حاصل نہ ہوگی اور اگر آپ اس میں رقم نہیں لگاؤگے تو آپ گناہ گار ہو جاؤگے، میرا سوال یہ ہے کہ اگر میں نے وہ رقم نہیں دی ، تو کیا واقعی میں  گناہ گار  ہوجاؤں گا اور قیامت کے دن مجھ سے پوچھ ہوگی ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ بلڈنگ کی مضبوطی کے لیے اس کی مرمت ضروری ہے اور نہ کرانے کی صورت میں پوری بلڈنگ کو نقصان پہنچ سکتا ہے ،تو مذکورہ بلڈنگ  کی مرمت کرنا وہاں کے مالکان کے ذمہ لازم ہے،تاکہ دیگر شرکاء نقصان سے محفوظ رہیں،لہذا اگر سائل کا حصہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے یا کمزور ہےاور اس کی وجہ سے بلڈنگ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ،تو سائل اپنے حصے کی از خود مرمت کرے یا اجتماعی مرمت میں حصہ لے،اگر وہ اس کے باوجود اپنے حصے کی مرمت نہیں کرتا اور بلڈنگ کو نقصان پہنچتا ہے تو وہ گناہ گار ہوگااوراس کا ضمان اس کے  ذمہ  لازم ہوگا۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (لا ‌ضرر ولا ضرار)."

(كتاب الأحكام، باب من بنى في حقه ما يضر بجاره، ج:2، ص:784، ط: دار إحياء الكتب العربية)

فیض القدیرمیں ہے:

"(لا ضرر) أي لايضر الرجل أخاه فينقصه شيئاً من حقه (ولا ضرار) فعال بكسر أوله أي لايجازي من ضره بإدخال الضرر عليه بل يعفو، فالضرر فعل واحد والضرار فعل اثنين أو الضرر ابتداء الفعل والضرار الجزاء عليه والأول إلحاق مفسدة بالغير مطلقاً والثاني إلحاقها به على وجه المقابلة، أي كل منهما يقصد ضرر صاحبه بغير جهة الاعتداء بالمثل، وقال الحرالي: الضر بالفتح والضم ما يؤلم الظاهر من الجسم وما يتصل بمحسوسه في مقابلة الأذى وهو إيلام النفس وما يتصل بأحوالها وتشعر الضمة في الضر بأنه عن قهر وعلو والفتحة بأنه ما يكون من مماثل أو نحوه اه. وفيه تحريم سائر أنواع الضرر إلا بدليل لأن النكرة في سياق النفي تعم وفيه حذف أصله لا لحوق أو إلحاق أو لا فعل ضرر أو ضرار بأحد في ديننا أي لايجوز شرعاً إلا لموجب خاص."

(حرف "لا"،ج:6،ص:431،ط: المكتبة التجارية الكبرى)

القواعد والضوابط الفقهية في الضمان المالي" میں ہے:

"وأما قاعدة (الغرم بالغنم):فإنها وإن جاءت على عكس قاعدة (الخراج بالضمان) - أي الغنم بالغرم - في اللفظ إلا أن المعنى فيهما متفق، وقد ذكر العلماء لهذه القاعدة صيغا كلية ونصوصا فقهية أسوقها كما يلي:

١ - «الغرم بالغنم»:

نص على هذه الصيغة كل من: أبي سعيد الخادمي وأصحاب مجلة الأحكام العدلية

٢ - «من كان الشيء له كانت نفقته عليه»:

نص على هذه الصيغة شيخ الإسلام ابن تيمية .

٣ - «من ملك الغنم كان عليه الغرم»:

نص على هذه الصيغة يوسف بن عبد الهادي .

٤ - «النقمة بقدر النعمة»:

نص على هذه الصيغة أصحاب مجلة الأحكام العدلية .

٥ - «كل مشترك نماؤه للشركاء ونفقته عليهم ونقصه عليهم»."

(  المبحث الأول: قاعدة: الخراج بالضمان وقاعدة: الغرم بالغنم، المطلب الأول: في صيغ القاعدة، ص: ٢٠٣ - ٢٠٤، ط: دار كنوز إشبيلية للنشر والتوزيع، السعودية)

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"المادة (1308) - (إذا احتاج الملك المشترك للتعمير والترميم فيعمره أصحابه بالاشتراك بنسبة حصصهم):إذا احتاج الملك المشترك للتعمير والترميم فيعمره أصحابه بالاشتراك بنسبة حصصهم سواء كان الملك مشتركا بين أكثر من مالك واحد أو مشتركا بين مالك ووقف أو كان قابلا للقسمة كالدار الكبيرة أو غير قابل للقسمة كالحمام والبئر فإذا كان الوقف شريكا في الملك فيدفع متولي الوقف حصة الوقف في المصرف بنسبة حصته والملك هنا أعم من ملك الرقبة وملك المنفعة. الخلاصة: إن نفقات الأموال المشتركة تعود على الشركاء بنسبة حصصهم في تلك الأموال حيث إن الغرم بالغنم كما جاء في (المادة 38) .

ويتفرع عن ذلك المسائل الآتية:1 - يقتضي الإنفاق مشتركا على تعمير الدار والحمام وبناء الحائط وتشييد السطح وكري النهر والحيوان وإصلاح القناة المشتركات."

(الكتاب العاشر الشركات ،الباب الخامس في بيان النفقات المشتركة ،الفصل الأول في  بيان تعمير الأموال المشتركة وبعض مصروفاتها الأخرى،ج:3، ص:310، ط: دار الجيل )

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وحائط لا يقسم أساسه فإن كان الحائط يحتمل القسمة ويبني كل واحد في نصيبه السترة لم يجبر وإلا أجبر وكذا كل ما لا يقسم كحمام وخان وطاحون....(قوله: وإلا أجبر) أي وإن لم يحتمل القسمة أجبر الآبي على البناء وهو الأشبه كما مر (قوله: كحمام إلخ) أي إذا احتاج إلى مرمة أو قدر أو نحوه."

(‌‌كتاب الشركة، ‌‌فصل في الشركة الفاسدة، مطلب في الحائط إذا خرب وطلب أحد الشريكين قسمته أو تعميره، ج:4، ص:335، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501102691

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں