بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بلڈنگ کی چھت پر جم ہونے کی صورت میں بلڈنگ کے مصلی میں نماز کا حکم


سوال

ہماری دکان  جس  مارکیٹ میں واقع ہے،  اس کے تہہ خانے میں مصلیٰ ہے اور اس کے اوپر دکانیں ہیں، دکانوں کے اوپر چوتھی منزل پر جم بنا ہے ، اس جم میں ایک بات تو یہ ہے کہ مستقل ساؤنڈ بجتا رہتا ہے ، البتہ اذان کے بعد سے نماز کے اختتام تک بند کر دیتے ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ اس میں روز انہ صبح 12 بجے سے شام 5 بجے تک خواتین بھی آتی ہیں۔ 

کیا  ہماری نمازوں پر اس کا کچھ اثر پڑے گا یا نہیں ؟ اور اس صورت حال میں ہمارے لیے کیا حکم ہے ؟ کیا جم کو برقرار رکھا جائے یا ختم کر دیا جائے ؟

جواب

واضح رہے کہ گانا بجانا اور موسیقی سننا،  سنانا شرعا حرام ہے، جس پر سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں، لہذا مذکورہ جم کے ذمہ داران پر لازم ہے کہ وہ اس گناہ کو فوری طور پر ترک کردیں،  کیوں کہ یہ دہرے گناہ کا باعث ہے، جس پر صدق دل سے توبہ و استغفار کیا جائے۔

صورت مسئولہ میں مذکورہ مصلی میں نماز باجماعت ادا کرنا جائز ہوگا،   چوتھی  منزل پر جم ہونے کی وجہ مصلی میں نماز ادا کرنے والوں کی نماز پر کچھ اثر نہیں پڑے گا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائقمیں ہے:

" (قوله ومن جعل مسجدا تحته سرداب أو فوقه بيت وجعل بابه إلى الطريق وعزله أو اتخذ وسط داره مسجدا وأذن للناس بالدخول فله بيعه ويورث عنه) لأنه لم يخلص لله تعالى لبقاء حق العبد متعلقا به والسرداب بيت يتخذ تحت الأرض لغرض تبريد الماء وغيره كذا في فتح القدير وفي المصباح السرداب المكان الضيق يدخل فيه والجمع سراديب. اهـ.

وحاصله أن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى {وأن المساجد لله} [الجن: ١٨] بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفا لمصالح المسجد فإنه يجوز إذ لا ملك فيه لأحد بل هو من تتميم مصالح المسجد فهو كسرداب مسجد بيت المقدس هذا هو ظاهر المذهب."

( كتاب الوقف، فصل: اختص المسجد بأحكام تخالف أحكام مطلق الوقف، كان إلى المسجد مدخل من دار موقوفة، ٥ / ٢٧١، ط: دار الكتاب الإسلامي )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407102300

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں