بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بلڈنگ کے چوکیدار سے ذاتی کام کروانا اور چوکیدار کا ڈیوٹی کے علاوہ دوسرے کاموں میں مشغول رہنے کا حکم


سوال

کافی عرصے سے کراچی شہر میں بلڈنگ کا سلسلہ عروج پر ہے اب تو بہت ہی کم علاقوں میں زمین کے گھر ہونگے ۔ جیساکہ بلڈنگ میں انتظامی سرگرمیاں چلانے کے لیے باہمی اتفاق اور مشورہ سے بلڈنگ کے چند افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے، پھر ان میں کوئی صدر ، خزانچی وغیرہ بنتا ہے اور ان کو مختلف امور سپرد کیےجاتے ہیں، بلڈنگ اور گیٹ کی دیکھ بھال کے لئے چوکیدار اور جمعدار رکھا جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا کمیٹی کے سربراہان کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنے گھر کے ذاتی کام جن میں سودا سلف منگوانا بلڈنگ کے چوکیدار سے کروا سکتے ہیں ،جب کہ بلڈنگ کا وہ اجتماعی چوکیدار ہے اور کسی کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ دوران ڈیوٹی ان سے انفرادی کام لے ،کیا چوکیدار کے لئے اس وقت کی اجرت لینا جائز ہے؟ اور اسی طرح جو کام کروا رہے ان کے لئے چوکیدار سے کام کروا نا جائز ہے ؟ اسی طرح بلڈنگ میں کوئی الیکٹریشن آتا ہے اور بلڈنگ کے کام کے ساتھ اپنے گھر کا بھی بجلی کا کام اسی اجرت میں کروانا کیا شرعی طور پر اس کی اجازت ہے ؟ کیا اسی طرح چوکیدار کے لئے جائز ہے دوران ڈیوٹی موبائل فون پر مشغول رہنا اور گھر والوں سے بغیر شرعی ضرورت کے بات کرتے رہنا یا ٹچ موبائل استعمال کرنے کی اجازت ہے ۔ اور اسی طرح چوکیدار کے آٹھ گھنٹوں کی ڈیوٹی میں سو جانا آرام کرنا جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں بلڈنگ کا چوکیدار پوری بلڈنگ کا مجموعی جوکیدار ہوتا ہے اس کے ذمہ مجموعی طور پر جو کام لگایا جاتا ہے اس کی ادائیگی اس کے ذمہ لازم ہوتی ہے وہ شخصی طور پر کسی فرد کا ملازم نہیں ہوتا لہذا چوکیدار کے ڈیوٹی کے اوقات میں کمیٹی کے سربراہان کے لیے ذاتی کام کروانا اور چوکیدار کے لیے ان کے کام کرنا جائز نہیں،اگر چوکیدار رضامندی سے ان کے کام کرتا ہےتو    جتنا وقت اپنی ذمہ داری چھوڑ کر کسی کے شخصی کام میں لگا رہا ہےاس کے بقدر اجرت کاٹی جاسکتی ہے۔الغرض کسی کے لیے بلڈنگ کے اجتماعی کام کی اجرت میں اپنےذاتی کام کروانا جائز نہیں، نیز چوکیدار کے لیے بغیر ضرورت کے کسی بھی ایسے کام میں مشغول ہونا جو اس کے ڈیوٹی کے کام میں کوتاہی کا ذریعہ بنےجائز نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"استأجر ‌نجارا يوما إلى الليل فأمره آخر أن يتخذ له دوارة بدرهم فاتخذ، إن علم أنه أجير لا يحل، وإن لم يعلم لا بأس وينقص من أجر النجار قدره إلا أن يجعله في حل، كذا في الوجيز للكردري.

وفي فتاوى الفضلي - رحمه الله تعالى -: إذا استأجر رجلا يوما ليعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى أهل سمرقند قد قال بعض مشايخنا رحمهم الله تعالى: إن له أن يؤدي السنة أيضا واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى، كذا في الذخيرة."

(کتاب الاجارة، الباب الثالث الأوقات التي يقع عليها عقد الإجارة، ج:4، ص:416،417، ط:ر شيدية)

مسند احمد میں ہے:

"عن عمرو بن يثربي، قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ألا ولا يحل لامرئ من مال أخيه شيء، إلا بطيب نفس منه".

(مسند البصریین، حديث عمرو بن يثربي، ج:34، ص:560، ط:مؤسسة الرسالة)

مؤطا امام مالک میں ہے:

"عن يحيى بن سعيد، أن عمر بن الخطاب انصرف من صلاة العصر فلقي رجلا لم يشهد العصر. فقال عمر: «ما حبسك عن صلاة العصر»؟ فذكر له الرجل عذرا، فقال عمر: «طففت» قال يحيى: قال مالك، ويقال: «لكل شيء ‌وفاء ‌وتطفيف»".

(کتا ب وقوت الصلاة، باب ما جاء في دلوك الشمس وغسق الليل، ج:1، ص:12، ط:دار احیاء التراث العربی)

معارف القرآن میں ہے:

" یاد رہے کہ ناپ تول کی کمی جس کو قرآن میں تطفیف کہا گیا ہے صرف ڈنڈی مارنے اور کم ناپنے کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ کسی کے ذمہ دوسرے کا جو حق ہے اس میں کمی کرنا بھی تطفیف میں داخل ہے جیسا کہ مؤ طا امام مالک رحمة اللہ علیہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ  سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص کو نماز کے ارکان میں کمی کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ تو نے تطفیف کردی یعنی جو حق واجب تھا وہ ادا نہیں کیا، اس کو نقل کرکے امام مالک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں لکل شیء وفاء وتطفیف، یعنی حق کا پورا دینا اور کمی کرنا ہر چیز میں ہوتا ہے، صرف ناپ تول میں ہی نہیں۔ 

 اس سے معلوم ہوا کہ جو ملازم اپنی ڈیوٹی پوری نہیں کرتا، وقت چراتا ہے، یا کام میں کوتاہی کرتا ہے، وہ کوئی وزیر و امیر ہو یا معمولی ملازم، اور وہ کوئی دفتری کام کرنے والا ہو یا علمی اور دینی خدمت، جو حق اس کے ذمہ ہے اس میں کوتاہی کرے تو وہ بھی مطففین میں داخل ہے، اسی طرح مزدور جو اپنی مقررہ خدمت میں کوتاہی کرے وہ بھی اس میں داخل ہے". 

(سورۃ الانعام، ج:3، ص:488، ط:معارف القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101991

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں