بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بلڈنگ اس شرط پر فروخت کرنا کہ بطور قیمت نئی تعمیر سے دو فلور لیں گے


سوال

1.ہمارے والد صاحب اور ان کےبھائی ،بہنوں اور والد صاحب کے کزن کی ایک مشترکہ  بلڈنگ ہے،اب میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے،ہم سب ورثاء اور جتنے بھی شریک ہیں ،اس بات پر راضی ہیں کہ اس بلڈنگ کو فروخت کریں،لیکن ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ ہم یہ بلڈنگ کسی ایسے آدمی کو فروخت کریں ،جو مکان بنانے کے بعد (کیوں کہ  پہلی والی بلڈنگ کافی بوسیدہ ہوچکی ہے) دو  فلور ہم کو دے دے ،اور باقی بلڈنگ کی ہم کو کیش رقم ادا کردے ،کیا بلڈنگ فروخت کرتے وقت اس طرح کی کوئی شرط لگانا شریعت کی رو سے درست ہے؟

2.ہمیں جو اپنے والد صاحب  کا حصہ ملے گا ،وہ کس طرح تقسیم ہوگا؟والد صاحب کےورثاء میں ایک بیوہ ،دو بیٹے اور ایک بہن ہے۔

جواب

1.واضح رہے کہ  احادیث مبارکہ میں ایک عقد کو دوسرے عقد کے ساتھ مشروط کرنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے ،  اور ایسا کرنے کی صورت میں وہ عقد فاسد ہوجاتاہے ،صورت ِ مسئولہ میں بیع کے اس معاملہ کو  دوسرے عقد( یعنی کہ اس بیع کے بعد بلڈر دو فلیٹ سا ئل کو  فروخت کرے گا )کے ساتھ مشروط کیا گیاہے  ،اور ایک عقد کے ساتھ دوسرے عقد کو شامل کیا گیا ہے ،لہذا اس بناء پر  بلڈنگ فروخت کرنے کا عقد فاسد ہوگا،البتہ اس کے جواز کی شکل یہ ہوسکتی ہے کہ پہلے بلڈر(خریدار ) کو  پرانی بلڈنگ بغیر کسی شرط کے  فروخت کردی جائے،اور قیمت کی تعیین کرلی جائے،اس کےبعد سائل نئے معاملہ کے طور پر بلڈر سے  باہمی رضامندی کے ساتھ دو فلیٹ خرید لے ،اورجو بلڈر کے ذمہ پرانی بلڈنگ کی خریداری کی وجہ سے ادائیگی باقی ہے ،اس میں سے وہ ان دو فلیٹوں کی رقم وصول کرلے  ،تو یہ صورت جائز ہے۔

2.سائل کےمرحوم والد صاحب کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ مرحوم والد  کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنےکےبعد ،اگر ان پر کوئی قرض ہو تو اسےکل مال سےادا کرنے کےبعد ،اگر انہوں نے کوئی جا ئز وصیت کی ہو تو اسے باقی مال کے ایک تہائی میں نافذکرنے کے بعد باقی کل منقولہ وغیر منقولہ ترکہ کو 16 حصوں میں تقسیم کرکے 2 حصے مرحوم کی بیوہ کو اور 7 حصے  ہر ایک بیٹے کو ملیں گے،اور مرحوم کی بہن کو بیٹوں کی موجودگی کی وجہ سے میراث میں حصہ نہیں ملے گا۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت(والد صاحب) :16/8

بیوہ بیٹابیٹا
17
277

 

یعنی فیصد کےاعتبار سے مرحوم کی بیوہ کو 12.5 فیصد اور مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو 43.75 فیصد ملیں گے۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"قال: وإذا اشتراه على أن يقرض له قرضا أو يهب له هبة أو يتصدق عليه بصدقة أو على أن يبيعه بكذا وكذا من الثمن فالبيع في جميع ذلك فاسد لنهي النبي - صلى الله عليه وسلم - عن بيع وسلف وعن بيعتين في بيعة."

(کتاب البیوع،باب البيوع إذا كان فيها شرط،ج:13،ص:16،ط:دار المعرفة)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وروى الحسن عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - إذا اشترى من آخر دابة على أن لا يعلفها فالبيع جائز وكذلك إذا قال على أن ينحرها وإن قال على أن يبيعها من فلان أو على أن لا يبيعها منه فالبيع فاسد وإن قال على أن يبيعها أو يهبها ولم يقل من فلان فالبيع جائز قال في المنتقى وهكذا روى ابن سماعة عن محمد - رحمه الله تعالى - وإن اشترى على أن لا يبيع إلا بإذن فلان أو اشترى دارا على أن لا يهدمها أو لا يبنيها إلا بإذن فلان فالبيع فاسد كذا في المحيط."

 (كتاب البيوع,الباب العاشر في الشروط التي تفسد البيع والتي لا تفسده,ج:3ص: 135ط:دار الفكر)

الدرالمختار مع رد المحتار میں ہے:

"(وإن سمى ثمن كل) أي فصل الثمن خلافا لهما، ومبنى الخلاف أن الصفقة لا تتعدد بمجرد تفصيل الثمن بل لا بد من تكرار لفظ العقد عنده خلافا لهما، وظاهر النهاية يفيد أنه فاسد."

(کتاب البیوع ،باب البیع الفاسد،ج:5،ص:56،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101123

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں