بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بلڈر کا زمیندار سے زمین لینا اوراپنا نفع رکھ کر بیچنا / مالکِ زمین کا اپنی زمین بلڈر کو تعمیر کے لیے دینا اور اجرت میں فلیٹ دینا


سوال

1۔ ایک شخص کے پاس 10000 اسکوائر فٹ زمین ہے، زمین دار ایک بلڈر سے فی اسکوائر فٹ 3000روپے طے کر لیتا ہے، اب یہ بلڈر اس زمین کی پلاٹنگ کرتا ہے اور راستے نکالتا ہے ،کھیل کا میدان نکالتا ہے ،پھر زمین 5000 یا 6000 روپے اسکوائر فٹ کے حساب سے بیچتا ہے ،زمین دار کو 3000 روپے اسکوائر فٹ کے حساب سے دے دیتا ہے ،باقی نفع کے طور پر اپنے پاس رکھ لیتا ہے ۔واضح رہے کہ بلڈر زمیندار کو پورے 10000اسکوائر فٹ کی ادائیگی کرتا ہے، تو کیا اس طرح کا معاملہ کرنا جائز ہے؟ اور مدت کی تعیین نہیں ہوتی ہے بلکہ جیسے جیسے زمین بکتی جاتی ہے بلڈر زمیندار کو رقم ادا کرتا ہے؟

2۔ایک شخص کے پاس زمین ہے،  لیکن اس کے پاس گھر بنانے کے  لیے پیسے نہیں ہیں ،ایک بلڈر اس سے معاہدہ کرکے اس زمین پر اپنے خرچ سے فلیٹ بناتا ہے اور زمین کے مالک کو معاہدہ کے مطابق ایک یا دو فلیٹ دے دیتا ہے باقی فلیٹ بیچ کر نفع اپنے پاس رکھتا ہے کیا اس طرح کرنا جائز ہے؟

جواب

1۔صورتِ  مسئولہ میں اگر بلڈر پہلے زمین دار سے زمین کو متعین  رقم کے عوض  حتمی طور  پر خرید لے اور رقم دینے کی مدت بھی متعین ہوجائے تو  وہ اس زمین کا مالک بن جائے گا  اور زمین کی قیمت اس کے ذمہ دین ہوجائے گی ،اس  کے بعد بلڈر کی مرضی ہے کہ وہ اپنی مملوکہ زمین کو  جتنے کی بھی بیچے  اگرچہ اس نے زمیندار کو قیمت ادا نہ کی ہو ۔

لیکن اگر  بلڈر  اور زمین کو زمین دار  کے درمیان   قیمت کی ادائیگی کی مدت متعین نہ  ہو ،یا سرے سے سودا  ہی حتمی نہ ہو،  بلکہ اس طرح معاملہ ہو کہ بلڈر زمین کو بیچے گا اور زمین دار کو  3000 اسکوائر فٹ کے حساب سے پیسے دے گا،  باقی  جو اضافی رقم ہوگی وہ بلڈر لے گا ، تو  یہ دونوں  صورتیں شرعًا درست نہیں ہیں ۔

لہذا پہلے متعینہ مدت  پر قیمت کی متعین قیمت کی ادائیگی کے عوض  حتمی سودا کر لیا جائے، اس کے بعد بلڈر اس زمین کو آگے نفع رکھ کر بیچ دے ،یا  بلڈر  زمین دار سے بروکری کا معاملہ کرلے، یعنی مالکِ زمین سے باقاعدہ اجرت طے کرلے کہ یہ زمین فروخت کروانے کی میں اتنی متعینہ اجرت لوں گا، خواہ زمین جتنی قیمت میں بھی فروخت ہوجائے۔

2۔صورت مسئولہ میں زمین کے مالک کا بلڈر سے یہ معاہدہ کرنا کہ بلڈر  اپنے خرچہ  سے اس زمین پرچند فلیٹ تعمیر کرے گا   اور مالک ِزمین بلڈر کو اس کے بدلے میں اسی میں سے ایک دو فلیٹ دیدے گا ،شرعًا فاسد  معاہدہ ہے ،اگر کسی نے اس طرح معاہدہ کیا تو تمام فلیٹ زمین کے مالک کی ملکیت ہوں گے  اور بلڈر تعمیرات پر ہونے والے خرچے اور اجرتِ مثل یعنی اس جیسے کام کی مارکیٹ میں جتنی اجرت دینے کا رواج ہے کا حق دار ہوگا۔

البتہ  اگر اس(تعمیرات کےخرچے اور اجرت مثل ) کی لاگت بلڈر کے حصے کے فلیٹ کے برابر ہو تو اس کے عوض باہمی رضامندی سے  بلڈر کو  فلیٹ  بھی دیے جاسکتے ہیں۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً؛ لكثرة التعامل، وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه، كدخول الحمام". 

( كتاب الإجارة، مطلب في أجرة الدلال، 6 / 63 ط: سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"(صح ‌بيع ‌العقار قبل قبضه)."

(كتاب البيع،فصل في بيان التصرف في المبيع والثمن قبل قبضه،6/ 126،ط:دار الكتاب الإسلامي)

شرح المجلہ میں ہے:

"البیع مع تأجیل الثمن و تقسیطه صحیح ...  یلزم أن تکون المدة معلومةً في البیع بالتأجیل والتقسیط". 

 (2 /166، المادۃ: 245، 246، ط: رشیدیة)

جامع الفصولين میں ہے  :

"دفع إليه أرضا على أن يبني فيها كذا كذا بيتا وسمى طولها وعرضها وكذا كذا حجرة على أن ما بنى فهو بينهما وعلى أن أصل الدار بينهما نصفان فبناها كما شرط فهو فاسد وكله لرب الأرض وعليه للباني قيمة ما بنى يوم بنى وأجر مثل فيما عمل."

(الفصل الرابع والثلاثون في الأحكامات ، أحكام العمارة في ملك الغير،ص:161، ط: إسلامي كتب خانه كراچي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101597

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں