بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بلڈر تجارت کے لیے خریدے گئے پلاٹس کی زکات کا حساب کیسے کرے


سوال

ہم دو بھائی اور ایک پارٹنر کل تین بندے شریک ہیں ،سب صاحبِ نصاب ہیں، ہمیں اپنی زکاۃکے بارے میں معلوم کرنا ہے کہ ہر ایک پر کتنی  زکوۃ واجب ہے؟

ہمارا کام بلڈنگ بنانے کا ہے،سب سےپہلے ہم نے 2016ء میں اٹھارہ لاکھ روپے کا ایک پلاٹ خریدا،  جب کہ ہمارے پاس صرف بارہ لاکھ روپے تھے،جس میں سے ہرایک کے چار چار لاکھ روپے تھے،2016ء سے 2017ء میں بلڈنگ بنانے کی مد میں ہم نے ایڈوانس بکنگ کر کے انیس لاکھ روپے حاصل کیے،اس طرح اکتیس لاکھ روپے ہوگئے،جس میں سے ہم نے دوسرا پلاٹ نو لاکھ کا اور تیسرا پلاٹ چار لاکھ روپے کا خریدا،بکنگ کی مزید رقم  آئی،  اس سے پہلے پلاٹ کی تعمیر کا عمل شروع کیا،اس کی تکمیل تقریباً 2022ء میں ہوگی۔

جو دوسراپلاٹ نو لاکھ روپے کا خریدا تھا،  اس پر نقشہ وغیرہ کی مد میں مزید تین لاکھ روپے  پہلے پلاٹ کی بکنگ سے آئی ہوئی رقم سے خرچ  ہوئے،اس کی تعمیر 2022ء میں شروع کی ہے اور اس کی تکمیل ان شاء اللہ 2026 میں ہوگی۔

جو تیسرا پلاٹ چار لاکھ روپے کا خریدا تھا،اس پر مزید ایک لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں،  جو پہلے پلاٹ کی بکنگ سے آنے والی رقم سے ہوئے، تیسرے پلاٹ کی بکنگ سے2020ء میں چار لاکھ اور 2021ء میں ایک لاکھ روپے آئے، جو پہلے پلاٹ میں واپس چلے گئے،اس طرح اس میں ہماری کوئی رقم نہیں  لگی اور اس کی تعمیر 2022ء کے آخر میں مکمل ہوگی۔

تفصیلات کے لیے  کچھ سرسری حساب ساتھ منسلک ہے۔نیز رفتہ رفتہ پلاٹوں کی ویلیو بھی بڑھتی رہی،  وہ بھی منسلکہ صفحہ میں درج ہے۔

جواب

جواب سے قبل پلاٹ پر بلڈنگ بنانے کے لیےاس کی بکنگ کی فقہی تکییف کرناضروری ہے، چنانچہ واضح ہو کہ فلیٹس کی تعمیر سے پہلے ان کی بکنگ شرعاً بیع نہیں ہوسکتی، کیوں کہ بکنگ میں ایک تو پوری بلڈنگ کے فلیٹس میں بک شدہ  فلیٹ کے تناسب سے زمین بک ہوتی ہے،  جو کہ موجود ہوتی ہے،  لیکن اس کے ساتھ فلیٹ کی عمارت بھی بک کی جاتی ہے،  جوکہ اس وقت معدوم(موجود نہیں) ہوتی ہے اور معدوم (جس کا وجود نہ ہو)چیز شرعاً مال نہیں ہے، بیع(سودے) میں جب دو ایسی چیزوں کو جمع کردیا جائے،  جن میں سے ایک معدوم(موجود نہ ہو)ہو تو بیع دونوں چیزوں میں باطل ہوجاتی ہے، لہذا بکنگ کے معاملے کو شرعاً بیع نہیں کہا جاسکتا۔

 بکنگ کی جائز صورت وعدہ بیع کی ہے، بکنگ کے وقت بلڈر اور بکنگ کرانے والا دونوں آپس میں وعدہ بیع کرلیں، پھر جیسے فلیٹ کی تعمیر ہوتی جائے گی، خود بخود بیع ہوتی جائے گی، فلیٹ کی عمارت بکنگ کرانے والے کی ملکیت ہوتی جائے گی، اس میں بلڈر کی ملکیت نہیں ہوگی، اس لیے بلڈر پر اس فلیٹ کی زکوۃ بھی لازم نہیں ہوگی،جب کہ تعمیر کے شروع ہونے سے قبل پلاٹ بلڈر کی ملکیت شمار ہوگا اور اس پر زکاۃ بھی لازم ہوگی،گاہک نے بطورِ ایڈوانس جو رقم دی، وہ فلیٹ کی تعمیر شروع ہونےسے پہلے  تک گاہک کی ملکیت رہے گی، بلڈر کے پاس صرف امانت ہوگی،لہٰذا تعمیر شروع ہونے تک اس رقم کی زکوۃ  بلڈر پر لازم نہیں ہوگی، بلکہ گاہک پر لازم ہوگی، پھر جب تعمیر شروع ہوجائے گی تو وہ رقم بلڈر کی ملکیت میں چلی جائے گی، اس کے بعد اس رقم کی زکوۃ کا تعلق بلڈر سے ہوگا، گاہک سے نہیں رہے گا۔نیز یہ بھی واضح ہو کہ کوئی  شخص  اگر مقروض ہو تو  قرضہ کو مال سے    منہا کرنے کے بعد باقی مال کی زکاۃ ادا کرنا لازم ہوتا ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں سائل  نے  سرسری طور پر جو حساب منسلک کیا ہے، صرف اس پر اکتفاء کر کے  سائل اور اس کے شرکاء کی زکاۃ کی مقدار  نہیں بتائی جاسکتی ،لہٰذا سائل اور اس کےشرکاء ذکر کردہ تفصیل کی روشنی میں 2016 ء سے لے کر اب تک کے حساب کو سامنے رکھ کر اپنی زکاۃ کا حساب لگائیں،مثلا2016 ء میں جب اٹھارہ لاکھ کا پلاٹ خریدا اور بارہ لاکھ ادا کیے تو چھ لاکھ قرضہ تھا،تو 2016ء میں اٹھارہ لاکھ پلاٹ کی ویلیومیں سے چھ لاکھ منہا کردیے جائیں ،اس کے بعد تعمیر شروع ہونے سے پہلے تک بکنگ کے جو پیسے آئے ،اس پر بھی  زکاۃ واجب نہیں ہو گی  اور تعمیر شروع ہونے کے بعد ،جس جس پلاٹ کی تعمیر شروع ہوتی جائے، تعمیر  کی زکاہ بھی سائل اور اس کے شرکاء پر لازم نہیں ہوگی،البتہ تعمیر ہونے کے بعد بکنگ میں آئی ہوئی رقم بلڈر کی ملکیت ہو جائے گی، اس لیے اس کی زکوۃ بلڈر پر لازم ہوگی،اسی طرح جن فلیٹس کی بکنگ نہیں ہوئی یا بکنگ تو  ہوگئی ہو،  لیکن  تعمیر شروع نہیں ہوئی توایسی صورت میں   ان فلیٹس  کے بقدر  پلاٹ کا حساب لگا کر اس کی زکاۃ بھی بلڈر پر لازم ہوگی۔واضح رہے کہاگر کل حساب موجود نہ ہو تو  حساب  کاتخمینہ لگا کر ظن غالب پر عمل کرتے ہوئے  زکاۃ کا حساب  لگایا جائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما شرائط الانعقاد فأنواعمنها في المبيع وهو أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم وما له خطر العدم كبيع نتاج النتاج والحمل كذا في البدائع."

(کتاب البیوع، الباب الأول،3/ 2، ط: مكتبة رشيدية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"من جمع بين حر وعبد أو شاة ذكية وميتة وباعهما بطل البيع فيهما سمى لكل واحد ثمنا أو لم يسم عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وعندهما إذا سمى لكل واحد ثمنا صح في العبد والذكية كذا في الكافي."

( کتاب البیوع،الباب التاسع ،الفصل العاشر ،3/ 131، ط: مکتبة رشیدية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إن ذكرا البيع من غير شرط ثم ذكرا الشرط على وجه المواعدة جاز البيع ويلزم الوفاء بالوعد كذا في فتاوى قاضي خان."

( کتاب البیوع، الباب العشرون فی البیاعات المکروہۃ و الارباح الفاسدۃ، 3/  209، ط:رشدية)

وفی بدائع الصنائع :

"وأما وجوب الزكاة فمتعلق بالنصاب إذ الواجب جزء من النصاب، واستحقاق جزء من النصاب يوجب النصاب إذ المستحق كالمصروف....وبيان ذلك أنه إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرين مثقال ذهب فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى، وليس عليه للسنة الثانية شيء عند أصحابنا الثلاثة. وعند زفر يؤدي زكاة سنتين، وكذا هذا في مال التجارة، وكذا في السوائم إذا كان له خمس من الإبل السائمة مضى عليها سنتان ولم يؤد زكاتها أنه يؤدي زكاة السنة الأولى وذلك شاة ولا شيء عليه للسنة الثانية. ولو كانت عشرا وحال عليها حولان يجب للسنة الأولى شاتان وللثانية شاة. ولو كانت الإبل خمسا وعشرين يجب للسنة الأولى بنت مخاض وللسنة الثانية أربع شياه. ولو كان له ثلاثون من البقر السوائم يجب للسنة الأولى تبيع أو تبيعة ولا شيء للسنة الثانية وإن كانت أربعين يجب للسنة الأولى مسنة وللثانية تبيع أو تبيعة...."

(فصل شرائط فرضية الزکاة،7/2،ط:رشیدية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية."

( کتاب الزکوۃ، الباب الثالث فی زکوۃ الذہب و الفضۃ و العروض، الفصل الثالث فی زکوۃ العروض، 1/ 179، ط: رشیدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101911

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں