بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بوفے کا کھانا باہر لے جانے کا حکم


سوال

ہمیں ہماری کمپنی کی طرف سے رہائش اور روزانہ 3 بار بوفے طرز کا کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ کمپنی کی پالیسی کے مطابق ملازمین کو میس ہال سے کھانا باہر لے جانے کی اجازت نہیں ہے، تاہم بہت سے ملازمین کھانا، خاص طور پر دہی اور پھل وغیرہ باہر لے جاتے ہیں، اور کیٹرنگ کا عملہ بھی کبھی اعتراض نہیں کرتا، چاہے ملازم ان سے پوچھے کہ کیا وہ یہ کھانا باہر لے جا سکتے ہیں تو وہ کہتے ہیں: ہاں۔ دہی اور پھل لےجانے کا ان کا پہلا مقصد اپنی سہولت کے مطابق انہیں استعمال کرنا ہے، دوسرا اکثر اوقات خاص طور پر ناشتے اور دوپہر کے کھانے میں وہ کھانے کے بعد دفتر جانے کے لیے بس پکڑنے کی جلدی میں ہوتے ہیں۔ میرے سوالات درج ذیل ہیں:

 کیا اس طرح کھانا لے جانا (اگرچہ کمپنی کی طرف اس کی اجازت نہیں ہے لیکن ملازمین کی طرف سے معمول بنا ہوا ہے، اور کیٹرنگ کا عملہ کبھی اعتراض نہیں کرتا) اور اسے کھانا حلال ہے؟

دیر ہونے کی صورت میں (زیادہ تر دیر سے جاگنے کی وجہ سے) اور بس پکڑنے کی جلدی میں (کیونکہ بس بالکل وقت پر چلتی ہے)، کیا ملازم کھانا (ناشتہ )باہر لے جا سکتا ہے، کیا یہ کھانا حلال ہوگا؟

اگر ملازم دوپہر کے کھانے کے وقفے کے دوران آرام کرنا چاہتا ہے اور میس ہال میں کھانا نہیں کھاتا ہے، اس کے بجائے کھانا لے کر چائے کے وقفے کے دوران بعد میں کھاتا ہے۔ کیا یہ حلال ہوگا؟

اگر کھانا زیادہ ٹرے میں نکال لیا ہے (غیر ارادی) تو بچ جانے والا کھانا جس کو اگر چھوڑیں گے تو کوڑے دان میں جائے گا، اسے باہر لے جانا حلال ہوگا؟

اگر حلال نہیں ہے اوربندہ اس طرح لے جا کر کھاتا رہا ہے تو اس کا اعادہ کیسے ہو گا؟

نوٹ: مقررہ وقت کے بعد بچ جانے والا کھانا(استعمال شدہ اور غیر استعمال شدہ)، سب کا سب کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے جو کہ ہمیشہ بہت زیادہ مقدار میں ہوتا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر انتظامیہ کی طرف سے ملازمین کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ کھانا باہر لے کر جائیں تو سوال میں ذکر کردہ تمام صورتوں میں ملازمین کے لیے جائز نہیں کہ وہ کھانا باہر لے کر جائیں، اگر لے کر جائیں گے تو گناہ گار ہوں گے اور وہ کھانا ان کے لیے حلال نہ ہو گا۔

اگر کمپنی کی پالیسی میں یہ بات ہے کہ ملازمین کو کھانا باہر لے کر جانے کی اجازت نہیں ہے تو محض کیٹرنگ کے عملہ کی طرف سے اجازت کا مل جانا شرعاً معتبر نہ ہو گا۔

اسی طرح اگر کھانا بچ جاتا ہو اور بعد میں ضائع کیا جاتا ہو اس صورت میں بھی حکم یہی ہو گا اور کھانا باہر لے کر جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔

تاہم اگر کیٹرنگ کا عملہ کھانا  پھینک دے اور وہ چیز قابلِ استعمال ہو تو  ملازم کے لیے  اس کو مالک کی اجازت کے بغیر اٹھا کر اپنے استعمال میں لانا جائز  ہوگا۔

باقی کمپنی کے عہدیداران سے یہ بات کی جائے کہ  بچا ہوا کھانا، بلکہ کھانے کے بچے ہوئے ذرات تک  کچرے میں پھینکنا درست نہیں ہے، اس میں اسراف کے ساتھ  ساتھ رزق کی ناقدری بھی ہے ، جب کہ اسلام ہمیں رزق کے اکرام کرنے کا حکم دیتا ہے،  اگر  کھانا بچ جائے تو پہلے تو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کھانا کسی کے استعمال میں آجائے، کسی   غریب    تک پہنچا دیا جائے، تاکہ وہ کھانا ضائع ہونے سے بچ جائے، البتہ اگر  بچا ہوا کھانا کسی غریب   تک پہنچانا ممکن  نہ ہو یا وہ کھانا انسانوں کے کھانے کے لائق نہ ہو تو بھی اسے کچرے  میں پھینکنے کے بجائے کسی ایسی جگہ ڈال دیا جائے جہاں سے کوئی جانور اسے کھا لے۔

نوٹ: یہ حکم اس صورت میں ہے جب اس کھانے کو کمپنی کی طرف سے باقاعدہ  اُجرت کا حصہ قرار نہ دیا گیا ہو، اگر یہ کھانا اجرت کا حصہ ہوتا ہو تو اس کی تفصیل بتا کر جواب دوبارہ معلوم کر لیں۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"إذا كان الرجل على مائدة فناول غيره من طعام المائدة إن علم أن صاحبه لا يرضى به لا يحل له ذلك، وإن علم أنه يرضى فلا بأس به، وإن اشتبه عليه لا يناول، ولا يعطي سائلا، كذا في فتاوى قاضي خان... 

ولا يجوز لأحد أن يطعم المجنون الميتة بخلاف الهرة، وإذا تنجس الخبز أو الطعام لا يجوز أن يطعم الصغير أو المعتوه أو الحيوان المأكول اللحم، وقال أصحابنا: لا يجوز الانتفاع بالميتة على أي وجه، ولا يطعمها الكلاب والجوارح، كذا في القنية."

(کتاب الکراہیۃ، الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات، جلد:5، صفحہ: 344، طبع: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101890

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں