بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچے کو عمرے پر لیجانے کی منت ماننا


سوال

کیا2 سا ل کے بچے کو عمرہ پہ لے جاسکتے ہیں ؟مطلب میرے شوہر یہ کہتے ہیں کہ بے ادبی ہوتی ہے کہ pamper  کے ساتھ بچے کو لے جانا حرم میں، ہمیں اللہ نے 16سال بعد اولاد دی ہے میں نے منت مانگی تھی کہ  اللہ جب مجھے اولاد دے گا تو میں اس کو عمرے پر  لےکر جاؤں گی ان شاءاللہ۔

جواب

واضح رہے کہ نذر کے الفاظ کے لیے ضروری ہے کہ  ان شاء اللہ  کے الفاظ سے خالی ہوں ،کسی نے نذر کے الفاظ زبان سے ادا کرتے ہوئے  ساتھ ہی ان شاءاللہ بھی کہہ دیا تو نذ ر منعقد (لازم )نہیں ہو گی، اگر نذر کے الفاظ  کے بعد کچھ وقفہ کر کے ان شاءاللہ کہا تو اس صورت میں نذر لازم منعقد (لازم )ہو جائے گی  ۔

لہذاصورت مسئولہ میں بچے کوحرمین کے سفر پر  لے جانے میں کوئی حرج نہیں  ہے   بچہ کو  عمرہ  اور حج  پر  لے جایا  جاسکتا ہے ،سائلہ نے یہ کہا کہ "اللہ جب مجھے اولاد دے گا تو میں اس کو عمرے پر  لےکر جاؤں گی ان شاءاللہ "تو  مذکورہ الفاظ ادا کرتے وقت   ان شاءاللہ ساتھ ہی کہا تھا درمیان میں وقفہ نہیں کیا تھا تو اس صورت میں نذر(منت) لازم نہیں ہوئی ہے ، اگر مذکورہ الفاظ کے درمیان میں وقفہ دیاتھا تو پھر اس صورت میں نذر(منت) کا پورا کرنا لازم ہے ۔

بدائع الصنائع میں ہے :

"(وأما) الذي يرجع ‌إلى ‌نفس ‌الركن فخلوه عن الاستثناء فإن دخله أبطله".

(کتاب النذر،90/2،دار الكتب العلمية)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين"  میں ہے :

"(ومن نذر نذراً مطلقاً أو معلقاً بشرط وكان من جنسه واجب) أي فرض كما سيصرح به تبعاً للبحر والدرر (وهو عبادة مقصودة) خرج الوضوء وتكفين الميت (ووجد الشرط) المعلق به (لزم الناذر)؛ لحديث: «من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى»، (كصوم وصلاة وصدقة) ووقف (واعتكاف) وإعتاق رقبة وحج ولو ماشياً فإنها عبادات مقصودة، ومن جنسها واجب؛ لوجوب العتق في الكفارة والمشي للحج على القادر من أهل مكة ... (ثم إن) المعلق فيه تفصيل فإن (علقه بشرط يريده كأن قدم غائبي) أو شفي مريضي (يوفي) وجوباً (إن وجد) الشرط.۔۔ (قوله: ومن نذر نذراً مطلقاً) أي غير معلق بشرط، مثل: "لله علي صوم سنة" فتح، وأفاد أنه يلزمه ولو لم يقصده كما لو أراد أن يقول كلاماً فجرى على لسانه النذر؛ لأن هزل النذر كالجد كالطلاق كما في صيام الفتح، وكما لو أراد أن يقول: لله علي صوم يوم، فجرى على لسانه صوم شهر كما في صيام البحر عن الولوالجية. واعلم أن النذر قربة مشروعة، أما كونه قربةً فلما يلازمه من القرب كالصلاة والصوم والحج والعتق ونحوها، وأما شرعيته فللأوامر الواردة بإيفائه، وتمامه في الاختيار".

 (کتاب ا لایمان،3/ 735،سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144410101245

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں