بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کی پرورش کا حق اورنفقہ کاحکم


سوال

میری شادی 2011 میں ہوئی تھی  ،ہمارے طلاق ہوئی 2021  ، 8فروی کو ،عدت کے بعد سے اب تک  تین بچے میرے پاس ہےاور میں ان بچوں سمیت امی کی گھر رہتی ہوں میں نے دوسری شادی نہیں کی   ،  میرے بچوں کی عمر یں، ماہ نور بیٹی  کی عمر جو کہ آنے والے جنوری میں 10 سال کی ہوجائے گی ،  بیٹامحمد معیذ جوکہ اگلے ماہ میں 8 سال کا ہوجائےگا،  بیٹازیدجو کہ آنے والی مارچ میں 6سال کا ہوجائے گا، اب تک میرے شوہر بچوں کا نان نفقہ دے رہے تھے ، لیکن اب وہ مجھے سے بچے مانگ رہےہیں کہ میں  خرچہ نہیں دوں گا، بچے میرے حوالے کرواور وکیل کے ذریعے مجھے کال کروارہاہے،میں بچوں کے ساتھ کرایہ کے گھر میں رہتی ہوں میری ماں کہتی ہے کہ تم بچے شوہر کو نہ دو، کیامیرے شوہر  مجھے سے بچے لے سکتےہیں یانہیں  ؟ براہ مہربانی راہ نمائی فرمائیں ۔

جواب

واضح رہے کہ علیحدگی کے بعد بیٹوں کی سات سال عمر تک اور بیٹی کی نوسال عمر تک  پرورش کا حق  ماں کوحاصل ہوتاہے،اور ان کا خرچہ باپ کے ذمے لازم ہوتاہے ، اس کے بعد   باپ کو پرورش کا حق ہوتا  ہے ، لہذاصورتِ مسؤلہ میں سائلہ کی   بڑی بیٹی  جو کہ آنے والے  جنوری کو دس سال کی ہوجائےگی اور بڑا بیٹا جو کہ  آٹھ سال کاہے ، دونوں کو ان کا باپ لینے کا حقدار ہے تاکہ تعلیم و تربیت کا انتظام کرسکے  ، البتہ  چھوٹا بیٹا   جس کی عمر آنے والی مارچ میں چھ سال ہوجائے گی اس کے پرورش کا حق سات سال کی عمر تک سائلہ کو ہے ۔

جہاں تک خرچہ کاسوال ہے تو لڑکوں کے بالغ اور کمانے کے قابل ہونے تک ، لڑکیوں کی شادی ہونے تک ان کا خرچہ  ان کے والد کے ذمے واجب ہے ۔

الدرالمختار میں ہے:

(وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقا ۔۔۔۔۔۔ (لا يشاركه) أي الأب ولو فقيرا (أحد في ذلك كنفقة أبويه وعرسه) به يفتى۔

(ج:3،ص:614 ،کتاب الطلاق، باب النفقۃ، ط:سعید)

 فتاوی ہندیہ میں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة"

 (الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١/ ٥٦٠، ط: رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب  (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية(وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى   (وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد، زيلعي."

             (باب الحضانۃ، ص/۵۶۶،۵۶۷، ج/۳، ط/سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع) ؛ لأنه إذا استغنى ‌يحتاج ‌إلى ‌تأديب والتخلق بآداب الرجال وأخلاقهم والأب أقدر على التأديب والتعنيف

و عن محمد أنها تدفع إلى الأب إذا بلغت حد الشهوة لتحقق الحاجة إلى الصيانة قال في النقاية: و هو المعتبر لفساد الزمان."

(باب الحضانة، ص/184، /4، ط/رشیدیہ) 

ردالمحتار میں ہے :

وفي الفتح: ويجبر الأب على أخذ الولد بعد استغنائه عن الأم لأن نفقته وصيانته عليه بالإجماع اهـ. وفي شرح المجمع: وإذا استغنى الغلام عن الخدمة أجبر الأب، أو الوصي أو الولي على أخذه لأنه أقدر على تأديبه وتعليمه. اهـ. وفي الخلاصة وغيرها: وإذا استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى، يقدم الأقرب فالأقرب

(کتاب الطلاق ،باب الحضانۃ 3/566 ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100385

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں