بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بڑے بھائی کا چھوٹے بھائی کو نکاح سے روکنے کا حکم


سوال

 کیا بڑا بھائی چھوٹے بھائی کے نکاح کو روک سکتا ہے، اگرچہ وہ کفو میں نکاح کر رہا ہوں یا وہ لڑکی والوں پر دباؤ بنا سکتا ہے کہ اگر تم نے نکاح کیا تو ہم شریک نہیں ہوں گے، جبکہ وہ بڑے بھائی کاسسرال ہے، اس میں کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں بڑا بھائی چھوٹے بھائی کو نکاح سے تو روک نہیں سکتا، تاہم چھوٹے بھائی کے لیے مناسب یہ ہے کہ مذکورہ جگہ نکاح کے لیے اپنے بڑے بھائی کو  کسی طرح راضی کرلے،  اور بڑے بھائی کو بھی چاہیے کہ اپنے عاقل بالغ بھائی کی رائے کا احترام کرے اور ایسا رویہ ہر گز نہ رکھے کہ چھوٹا بھائی کوئی ایسا قدم اٹھانے پر مجبور ہوجائے جو ان کے درمیان صلہ رحمی ختم کرلے، کیوں کہ شریعت نے عاقل بالغ بچوں کی رائے کا خیال رکھنے کا ہمیں حکم دیا ہے، بروقت حکمت کے ساتھ ان کو سمجھا دینا چاہیے، تاکہ وہ اپنے دل کی چاہت بجائے دوسروں سے کہنے کے اپنے بھائی سے ہی کہہ کر سکون محسوس کریں، اور بھائی اگر رشتہ مناسب نہ سمجھیں تو انہیں پدرانہ و مادرانہ شفقت سے نوازتے ہوئے ان کا بھلا سمجھا دیں، نيز  بڑے بھائی کی بات معقول ہو تو چھوٹے بھائی اسے دل و جان سے قبول بھی کرے،  یوں جانبین سے اعتماد و محبت کی فضا قائم رہتی ہے۔ 

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(الكفاءة معتبرة) في ابتداء النكاح للزومه أو لصحته (من جانبه) أي الرجل لأن الشريفة تأبى أن تكون فراشا للدنيء ولذا (لا) تعتبر (من جانبها) لأن(قوله الكفاءة معتبرة) قالوا معناه معتبرة في اللزوم على الأولياء حتى أن عند عدمها جاز للولي الفسخ. اهـ. فتح وهذا بناء على ظاهر الرواية من أن العقد صحيح، وللولي الاعتراض، أما على رواية الحسن المختارة للفتوى من أنه لا يصح. فالمعنى معتبرة في الصحة. وكذا لو كانت الزوجة صغيرة، والعاقد غير الأب والجد، فقد مر أن العقد لا يصح (قوله في ابتداء النكاح) يغني عنه قول المصنف الآتي: واعتبارها عند ابتداء العقد إلخ وكأنه أشار إلى أن الأولى ذكره هنا (قوله للزومه أو لصحته) الأول بناء على ظاهر الرواية، والثاني على رواية الحسن وقدمنا أول الباب السابق اختلاف الإفتاء فيهما، وأن رواية الحسن أحوط (قوله من جانبه إلخ) أي يعتبر أن يكون الرجل مكافئا لها في الأوصاف الآتية بأن لا يكون دونها فيها، ولا تعتبر من جانبها بأن تكون مكافئة له فيها بل يجوز أن تكون دونه فيها (قوله ولذا لا تعتبر) تعليل للمفهوم، وهو أن الشريف لا يأبى أن يكون مستفرشا للدنيئة كالأمة والكتابية لأن ذلك لا يعد عارا في حقه بل في حقها لأن النكاح رق للمرأة والزوج مالك".

(کتاب النکاح، باب الكفاءة، ج:3، ص:84، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100384

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں