بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بروکری لینا شرعا کب جائز ہوتا ہے؟


سوال

میرے بھائی نے  میرے مکان کا سودا اپنے دوست سے کروایا،  سودا ہوجانے کے بعد میرا بھائی فریقین سے کمیشن کا مطالبہ کر رہا ہے، جبکہ وہ ایک آفس میں کام کرتا ہے،  پیشے سے وہ نہ بروکر ہے، اور نہ ہی کمیشن کی بات پہلے سے طے تھی۔

مذکورہ بالا صورتحال میں میرے بھائی کا فریقین سے کمیشن کا مطالبہ  قرآن و حدیث کی روشنی میں جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بروکری / کمیشن کے استحقاق کی درج ذیل شرائط ہیں:

1۔  جس کام پر کمیشن لیا جا رہا ہے وہ کام فی نفسہ جائز ہو۔

2۔کام بھی متعین ہو ، بروکر و کمیشن ایجنٹ واقعی کوئی معتد بہ عمل انجام دے ۔

3۔ کمیشن (اجرت) جانبین کی رضامندی سے بلاکسی ابہام کے متعین ہو۔

پس مذکورہ بالا تینوں شرائط میں سے اگر کوئی ایک شرط نہ پائی جائے، تو اس صورت   میں کمیشن / بروکری لینے کا حق نہیں ہوتا، لہذا  صورت مسئولہ میں اگر سائل کے بھائی نے پہلے سے بروکری طے نہیں کی تھی تو اب فریقین سے کمیشن کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں۔

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

" وأما أجرة السمسار والدلال فقال الشارح الزيلعي: إن كانت مشروطة في العقد تضم، وإلا فأكثرهم على عدم الضم في الأول، ولا تضم أجرة الدلال بالإجماع اهـ. وهو تسامح فإن أجرة الأول تضم في ظاهر الرواية والتفصيل المذكور قويلة، وفي الدلال قيل لا تضم والمرجع العرف كذا في فتح القدير اهـ."

( كتاب البيوع، باب المرابحة و التولية، ٥ / ١٣٦، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100044

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں