بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بروکر سودا مکمل نہ ہونے کی وجہ سے پیمنٹ روکنا


سوال

یہ مسئلہ دو فریق کے درمیان ہے،  کچھ اس طرح کہ:

فریق اول کا یہ موقف ہے کہ:

ہمارا بروکری کا کام ہے،  میں نے ایک پلاٹ کا سودا کرایا اور فروخت کنندہ سے ایک لاکھ پچھتر ہزار روپے کمیشن طے ہوا اور ایگریمنٹ کے وقت فروخت کنندہ نے پچھتر ہزار روپے ادا  کیے، بقیہ ایک لاکھ روپےبعد میں ادا کریں گے۔ اب جس نے پلاٹ خریدا اس نے پیمنٹ ادا کرنے میں وقت لگا دیا مقررہ اگریمنٹ کا وقت گزر گیا،  اب فروخت کنندہ کا یہ کہنا ہے کہ آپ نے سودانہیں کرایا،  اس وجہ سے بقیہ ایک لاکھ روپے  دینے کے ہم پابندنہیں اور  فروخت کنندہ بقایا پلاٹ کی رقم 90 فیصد خریدار سے وصول کر چکاہے۔  اب پوچھنا یہ ہے کہ فروخت کنندہ نے کمیشن  کی  مد میں جو ہمارے ایک لاکھ روپے روکے تو وہ درست ہے  یا نہیں ؟ جواب دے کر مشکور ہوں!

فریقِ  ثانی کا موقف:

فروخت کنندہ کا کہنا ہے،  میں نے اپنا پلاٹ بروکر  کے ذریعہ بکوایا اور  بروکر  سے یہ  طے ہوا کہ ایگریمنٹ چار  ماہ کا ہوگا اور ایک لاکھ پچھتر ہزار روپے کمیشن دوں گا، چار  ماہ کا وقت گزر گیا، لیکن پلاٹ  کی پیمنٹ پوری ادا نہیں کی، پھر جس نے پلاٹ خریدا اس سے ہماری بات ہوگی اور معاملہ طے ہوگیا۔  بروکر  کو  میں نے ایگریمنٹ کے وقت پچھتر ہزار  روپے  دے  دیے، بقیہ ایک لاکھ  كي رقم میں نے روک لی تھی،  اب ایگریمنٹ کے  تحت پیمنٹ پوری نہیں ہوئی تو بروکر کو  میں نے کہا:  بقیہ ایک لاکھ میں  نہیں دوں گا؛ کیوں کہ آپ نے وقت پر  سودا  پورا نہیں کرایا۔  اب پوچھنا یہ  ہے کہ بروکر کا بطور کمیشن بقیہ ایک  لاکھ  روپے نہ دینا  یہ درست  ہے یا نہیں؟

اور یہ بروکری شرعی لحاظ درست ہے اور اس کا کیا شرائط   ہیں؟  جواب  دے کر مشکور فرمائیں!

وضاحت: سودا  کی تاخیرخریدار کی وجہ سے ہوئی!

جواب

واضح رہے کہ شرعًا بروکر اپنی عمل کی تکمیل کے بعد  اپنی اجرت کا حقدار ہوتا ہے، اور عمل کی تکمیل خریدار کی طرف سے مکمل ادائیگی کے بعد ہوتی ہے۔

  زیر نظر مسئلہ میں سودا باقی ہے اس کو ختم نہیں کیا گیا، لہذا  خریدار کی جانب سے رقم کی ادائیگی میں تاخیر کرنے  کی وجہ سے فروخت کنندہ کا بروکر کو اس کی طے شدہ مکمل اجرت کی ادائیگی سے انکار کرنا شرعًا جائز نہیں ، خریدار جب بھی  بقایا رقم  بائع کو ادا  کردے گاتو  سائل  فروخت کنندہ سے اپنی بقایا اجرت لینے کا حق دار  ہوگا۔

تبيين الحقائق میں ہے:

"فلايجب ‌الأجر إلا ‌بعد ‌العمل فعند ذلك هو معلوم فهذا هو القاعدة لهما."

(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق: 5/140، ط:طبعة القاهرة)

شامی میں ہے:

"‌وأفتيت بأن ضمان ‌الدلال والسمسار الثمن للبائع باطل؛ لأنه وكيل بالأجر ، وذكروا أن الوكيل لا يصح ضمانه؛ لأنه يصير عاملا لنفسه فليحرر اهـ"

(الدر المختار، كتاب الكفالة، مطلب في بيع العينة: 5/334، ط: سعيد)

شامی میں ہے:

"(والسّمسار يجبر على التّقاضي) وكذا ‌الدَّلّال؛ لأنَّهما يعملان بالْأجرة."

(کتاب المضاربة، فصل في المتفرقات في المضاربة: 5/656، ط: سعيد)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"فأما إذا كان وكيلا بأجر نحو السمسار والدلال والبياع فيجبر على استيفاء الثمن كذا في المحيط"

(كتاب الوكالة، باب في وكالة البيع: 5/596، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100260

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں