بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بروکر کے ذریعے چاول خرید کر قبضے سے پہلے اور قبضے کے بعد بیچنے کی مختلف صورتوں کا حکم


سوال

ہمارا چاول کا کاروبار ہے، گاؤں میں ہم اپنے بروکر کے ذریعے چاول خرید تے میں ،قیمت کی ادائیگی ہم اسی وقت کردیتے ہیں، یعنی بروکر جب چاول قبصہ میں لیتا ہے تو ہمیں اطلاع کرتا ہے کہ فلاں اکاؤنٹ میں ادائیگی کردو تو ہم اسی وقت اکاؤنٹ میں رقم ڈال کر ادائیگی کردیتے ہیں۔

 (1) اب کبھی اس طرح ہوتا ہے کہ  برو کر چاول  خرید کر قبضہ کر لیتا ہے اور بروکر کے قبضہ کرلینے کے بعد ہم یہاں کراچی یا کسی دوسرے شہر کی مارکیٹ میں اس چاول کو بیچ دیتے ہیں۔

(2)کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بروکر قبضے کرنے کے بعد چاول کو گاڑی میں ڈال کر ہماری طرف روانہ کردیتا ہے اور گاڑی ابھی راستے میں ہی  ہوتی ہے اور ہم اس چاول کا سودا کرلیتے ہیں۔

(3) کبھی اس طرح ہوتا ہے کہ گاڑی پہنچ جاتی ہے اور  ہم گاہک کو چاول  کا ایک سیمپل دکھا کر پھر سودا کرتے ہیں ۔

اب ان تینوں صورتوں کا شرعاً کیا حکم ہے؟ کیا اس طرح معاملہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

کسی بھی چیز کو آگے بیچنے کے لیے اس چیز پر اپنی  ملکیت اور قبضہ ہونا شرط ہے، نیز وکیل کا قبضہ بھی اپنے قبضے کی طرح ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب آپ کا وکیل بروکر آپ کے لیے گاؤں سے چاول خرید کر قبضہ کرلیتا ہے تو اس کے قبضہ کرتے ہی آپ کے لیے اس چاول کو آگے بیچنا جائز ہے، لہٰذا سوال میں ذکر کردہ تینوں طریقوں کے مطابق آپ کا چاول آگے بیچنا درست ہے، یعنی خواہ چاول وکیل کے پاس رکھے ہوں یا وکیل نے گاڑی میں روانہ کردیے ہوں اور راستے میں ہوں یا آپ کے پاس پہنچ چکے ہوں، تینوں صورتوں میں آپ کے لیے اس چاول کا آگے سودا کرنا درست ہے۔البتہ بروکر کے قبضہ کرنے سے پہلے چاول کو آگے بیچنا جائز نہیں ہوگا۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من ابتاع طعاما، فلا يبعه حتى يستوفيه، قال ابن عباس: وأحسب كل شيء مثله." 

ترجمہ:"آپ ﷺنے فرمایا :جو شخص غلہ خریدے،تو اسے آگے نہ بیچےجب تک کے اس کو پورا وصول نہ کرلے،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اور میرا خیال ہے کہ  ہر چیز اسی طرح ہے۔"

(‌‌كتاب البيوع،‌‌ باب بطلان بيع المبيع قبل القبض، ج:3، ص:1159، رقم:1525، ط:دار إحياء التراث العربي)

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"وعن ابن عباس قال: أما الذي نهى عنه النبي صلى الله عليه وسلم فهو الطعام) أي جنس الحبوب (أن يباع حتى يقبض) بصيغة المجهول قال ابن عباس ولا أحسب) بكسر السين وفتحها أي لا أظن (كل شيء إلا مثله) أي مثل الطعام في أنه لا يجوز للمشتري أن يبيعه حتى يقبضه. قال ابن الملك: والأظهر أنه من قول ابن عباس. (متفق عليه)."

(كتاب البيوع، باب المنهي عنها من البيوع، 6/ 67، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

تبین الحقائق میں ہے:

"قال رحمه الله (لا بيع المنقول) أي لا يجوز بيع المنقول قبل القبض لما روينا ولقوله عليه الصلاة والسلام «إذا ابتعت طعاما فلا تبعه حتى تستوفيه» رواه مسلم وأحمد ولأن ‌فيه ‌غرر ‌انفساخ ‌العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا."

(کتاب البیوع، باب التولية، فصل بيع العقار قبل قبضه، ج:4 ص:80  ط: رشیدیة)

درر الحکام فی  شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"أما إذا سلم البائع المبيع إلى شخص أمر المشتري بتسليمه إليه فقد حصل القبض كما لو سلم البائع المبيع إلى المشتري نفسه فإذا أمر المشتري البائع قبل القبض بتسليم المبيع إلى شخص معين وسلم البائع المبيع إلى ذلك الشخص يكون المشتري قد قبض المبيع۔"

(الکتاب الاول البیوع،الباب الخامس  فيبيان المسائل المتعلقة بالتسليم والتسلم، الفصل الاول،1/ 249،ط:دار الجلیل)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144603102960

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں