کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں نے ایک شخص کوبطورِ بروکر دوکروڑ روپے کی پراپرٹی بکنگ پر دلوائی اور ہمارے درمیان یہ طے ہوا تھا کہ وہ شخص مجھے کل قیمت کی ایک فی صد رقم،دو ماہ بعد بروکری کی کمیشن ادا کرے گا،تو اب دو کروڑ میں میرا حق دو لاکھ روپے کی رقم بنتی ہے،جب کہ وہ شخص مجھے کہتا ہےکہ میں نے ایک مفتی صاحب سے اس سلسلے میں فتوی لیا ہے،ان کا کہنا کہ میرا بروکری کا کوئی حق نہیں بنتا ہے،جب کہ اس کے پاس تحریراً کوئی فتوی موجود نہیں ہے،لہٰذا آپ قرآن و سنت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں کہ کیا میرا طے کرنے کے باوجود برکروی ایک فی صد کمیشن کا حق بنتا ہے یا نہیں؟
وضاحت:مذکورہ دو آددمیوں کے درمیان معاہدہ صرف پراپرٹی بکنگ پر ہوا تھا۔
صورتِ مسئولہ میں سائل نے جب مذکورہ شخص سے بروکری کا معاملہ کیا،اور صرف پراپرٹی بکنگ کرنے پر سائل کے لیے کل قیمت کا ایک فی صد کمیشن مقرر کر دیا،سودا کی کار روائی مکمل کرنے کی ذمہ داری نہیں لی تھی،تو حسبِ معاہدہ سائل پراپرٹی بکنگ کرنے کے بعد کل قیمت مثلاً:دو کروڑکے ایک فی صد دو لاکھ کمیشن کا حق دار ہے،مذکورہ شخص کا یہ کہنا کہ سائل بروکری کا معاملہ سر انجام دینے کے بعد کمیشن کے حق دار نہیں ،یہ درست نہیں ہے،بلکہ فی صد مقرر کرکے برکروی کا معاملہ کرنا تعامل کی وجہ سے جائز ہے،اور بروکراپنی خدمات کے عوض کمیشن کا حق دار ہوتا ہے،اور اگر بروکر کی ذمہ صرف بکنگ کروانے کی حق تک نہ تھی،بلکہ بکنگ کے بعد سودا کی کار روائی مکمل کرنے پر تھی تو پھر طے کردہ کمیشن سودا کی کار روائی پورا کرنے پر ملے گا،صرف بکنگ پر نہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"مطلب في أجرة الدلال [تتمة]
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة."
(کتاب الإجارة، باب إجارة الفاسدة، 63/5، سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101466
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن