بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بروکرکا خریدار کو قبضہ دینے کے بجائے پراپرٹی اپنے نام کروالینا


سوال

میں نے ایک بروکرکےذریعےپراپرٹی خریدی،اوراصل مالک سےنہیں ملا،پراپرٹی کی کل قیمت 40 لاکھ تھی،میں نے پانچ لاکھ روپے بیعانہ اداکیا،بقیہ 35لاکھ روپے ایک ماہ کے اندر دینے تھے،ایک ماہ بعد جب بقیہ رقم دینے کےلیے ان سے رابطہ کیاتو وہ مجھے دھوکہ دینے لگا،میرابیعانہ استعمال کیا،جس پرمیں اس پراپرٹی کے اصل مالک سے ملا تو اس نے کہاکہ یہ پراپرٹی تو بروکر نے اپنے نام کروالی ہے،اور میرے پاس پوری رقم بھی آگئی ہے۔

اب معلوم یہ کرناہے کہ بروکر کے اس عمل پر کیا وعیدیں ہیں؟بروکر مجھے پانچ لاکھ روپےکے بدلے دس لاکھ روپے دینے کو تیارہے وہ میرےلیے لینا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل اوربروکر کے درمیان پراپرٹی کی خریداری کا معاملہ ہوا،اورسائل نے بروکرکو پانچ لاکھ روپے بیعانہ کے طور پر ادا بھی کردیے ہیں،تو ایجاب وقبول  کرنے سےہی بیع تام ہو چکی تھی،اور پراپرٹی میں سائل کا حق ثابت ہوچکا تھا،ایسی صورت میں بروکرکا  وہی پراپرٹی خود اپنے نام کروالینادھوکہ دہی کی بنیاد پرشرعاًناجائز ہے،لہٰذا  بروکر پر لازم ہے کہ وہ پراپرٹی سائل کوواپس کرے،اورسائل باقی 35لاکھ روپے بروکرکو ادا کرے،سائل کو پراپرٹی قبضہ میں دینے کے بعداگر  بروکروہی پراپرٹی  سائل سے خریدنا چاہےتوموجودہ قیمت یاجس پر دونوں راضی ہوں خریدکرلے، تو اس میں میں کوئی حرج نہیں ہے۔

مسندامام  احمد میں ہے:

"حدثنا وكيع قال: سمعت الأعمش قال: حدثت عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب."

(ج: 36، ص: 504، رقم الحدیث: 22170، ط: مؤسسة الرسالة)

مسند أحمد ابن حنبل میں ہے:

"عن أبي حميد الساعدي رضي الله عنه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : لا يحل لامرئ أن يأخذ مال أخيه بغير حقه و ذالك لما حرم الله مال المسلم على المسلم."

(حديث أبي حميد الساعدي، ج:39، ص:19، ط: مؤسسة الرسالة)

درر  الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"‌‌‌‌(المادة 374) البيع النافذ قد يفيد الحكم في الحال.أي بمجرد وقوع العقد يفيد البيع النافذ الذي هو ملكية البائع للثمن والمشتري للمبيع وتصرف كل منهما فيما في يده ولا حاجة في ذلك إلى شيء آخر

(المادة 375) إذا كان البيع لازما فليس لأحد المتبايعين الرجوع عنه.أي ليس لأحد المتبايعين أو ورثته في البيع النافذ اللازم أن يرجع عنه بدون رضاء الآخر بوجه من الوجوه.أما الطرفان؛ فلهما بالتراضي أن يتقايلا البيع كما قد بين في الفصل الخامس للباب الأول."

(الکتاب الأول البیوع، الباب السابع في بيان أنواع البيع وأحكامه، ج:1، ص:401، ط؛دار الجیل)

فتح القدیر میں ہے:

"لأن أحد المتعاقدین لا ینفرد بالفسخ کمالا ینفرد بالعقد.....(يصدقه لأن أحد المتعاقدين لا ينفرد ‌بالفسخ) فإنكاره إن كان فسخا من جهته لا يحصل به الإنفساخ."

 ( کتاب القضاء، باب التحکیم، ج:7، ص:334، ط: دارالفکر لبنان)

العناية شرح الهداية" میں ہے:

"(البيع ينعقد بالإيجاب والقبول) الإنعقاد هاهنا تعلق كلام أحد العاقدين بالآخر شرعا على وجه يظهر أثره في المحل. والإيجاب الإثبات."

(کتاب البیوع، ج:6، ص:248، ط: دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما حكمه فثبوت الملك في المبيع للمشتري وفي الثمن للبائع إذا كان البيع باتا ...قال أصحابنا رحمهم الله تعالى للبائع حق حبس المبيع لاستيفاء الثمن إذا كان حالا كذا في المحيط وإن كان مؤجلا فليس للبائع أن يحبس المبيع قبل حلول الأجل ولا بعده كذا في المبسوط."

(کتاب البیوع، الباب الرابع في حبس المبيع بالثمن، الفصل الأول في حبس المبيع بالثمن، ج:3، ص:15، ط: رشیدیه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100936

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں