بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بریلوی امام کی اقتداء میں نماز پڑھنا


سوال

ہ بندہ گاڑی چلاتا ہے اور اس سلسلے میں عصر اور مغرب کے نماز کا وقت ایسی جگہ آتا ہے جہاں پر صرف بریلوی مسلک والوں کی مسجد ہے کوئی اور مسجد نہیں ہے تو اس صورت میں بریلوی أمام کے پیچھے با جماعت نماز ادا کی جائے یا اکیلے ہی نماز ادا کرے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی شخص کی اقتداءمیں نماز  کے جواز و عدم جواز کا تعلق  اس شخص کے عقیدے اور نظریے سے ہوتا ہے،اگر شرکیہ و کفریہ عقائد و نظریات رکھتا ہو تو اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے،اور اگر اس کےعقائد کفریہ نہیں ہے  بلکہ فاسق یا بدعتی ہےتو اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکرہِ تحریمی ہے،صورتِ مسئولہ میں بریلوی امام صرف بدعتی ہو عقائد درست ہو تو اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا مکروہ ہے تاہم تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اگر عقائد معلوم نہ ہو تب بھی نماز پڑھنے سے نماز ہو جائے گی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة۔۔۔(قوله نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لا ينال كما ينال خلف تقي ورع لحديث «من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي» قال في الحلية: ولم يجده المخرجون نعم أخرج الحاكم في مستدركه مرفوعا «إن سركم أن يقبل الله صلاتكم فليؤمكم خياركم، فإنهم وفدكم فيما بينكم وبين ربكم»."

(کتاب الصلاۃ، باب الامامة، ج:1، ص:562، ط: سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(الفصل الثالث في بيان من يصلح إماما لغيره) قال المرغيناني تجوز الصلاة خلف صاحب هوى وبدعة ولا تجوز خلف الرافضي والجهمي والقدري والمشبهة ومن يقول بخلق القرآن وحاصله إن كان هوى لا يكفر به صاحبه تجوز الصلاة خلفه مع الكراهة وإلا فلا. هكذا في التبيين والخلاصة وهو الصحيح."

(کتاب الصلاۃ، باب الامامة، ج:1، ص:84، ط: دار الفكر بيروت )

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله وكره إمامة العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع والأعمى وولد الزنا) بيان للشيئين الصحة والكراهة أما الصحة فمبنية على وجود الأهلية للصلاة مع أداء الأركان وهما موجودان من غير نقص في الشرائط والأركان ومن السنة حديث «صلوا خلف كل بر وفاجر» ، وفي صحيح البخاري أن ابن عمر كان يصلي خلف الحجاج وكفى به فاسقا كما قاله الشافعي۔۔۔وفي الأصل الاقتداء بأهل الأهواء جائز إلا الجهمية والقدرية والروافض الغالي ومن يقول بخلق القرآن والخطابية والمشبهة وجملته أن من كان من أهل قبلتنا ولم يغل في هواه حتى يحكم بكفره تجوز الصلاة خلفه وتكره."

(كتاب الصلاة، باب الامامة، ج:1، ص:369 ط: دارالكتاب الاسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408102256

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں