بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

برانڈ کی نقل کرنے کا حکم


سوال

یہاں لوگ برونائی میں دوسروں کے برانڈز استعمال کرتے ہیں بغیر بتائے کہ یہ نقل ہے،  کسی مشہور برانڈ کا سیمپل اور لوگو دھوکہ دہی کے لیے استعمال کرنا اور اس کی مشہوری کو کیش کرتے ہوئے کم کوالٹی والے پروڈکٹس اسی نام سے بیچنا شرعی طور پر کیسا ہے ؟ ایسے کاروبار کی کمائی کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں دوسروں کے برانڈز استعمال کرنا یا کسی مشہور برانڈ کا سیمپل اور لوگو دھوکہ دہی کے لیے استعمال کرنا یا کم کوالٹی والے پروڈکٹس کو اعلی کوالٹی کے نام پر فروخت کرنا سب ناجائز ہیں، کیوں کہ دھوکہ اور جھوٹ ہے اور آگے کسٹمر کی جانب سے خریداروں کو دھوکہ دینے کا سبب بھی ہے، اس لیے یہ سب ناجائز ہیں اور کمائی بھی حلال طیب نہیں ہے، اس سے بچنا ضروری ہے۔

الدر المختار میں ہے:

"لا يحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن؛ لأن ‌الغش ‌حرام إلا في مسألتين.

الأولى: الأسير إذا شرى شيئا ثمة ودفع الثمن مغشوشا جاز إن كان حرا لا عبدا. الثانية: يجوز إعطاء الزيوف والناقص في الجبايات أشباه."

(کتاب البیوع، ج:5، ص:47، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں