بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بریک فیل ہوجانے کی وجہ سے ایکسیڈنٹ میں قتل کا حکم


سوال

ایک ڈرائیور کی گاڑی کابریک فیل ہوا،اس کے ساتھ گاڑی میں اٹھارہ افرادسوارتھے،ڈرائیورنےبہت کوشش کی ،لیکن گاڑی قابوسے باہرتھی،اس دوران ایک موٹر سائیکل سوارپر گاڑی چڑھ گئی،جس سےوہ بموقع فوت ہوا،اب سوال یہ ہےکہ یہ قتل کی کون سی قسم میں داخل ہے اورکیاڈرائیورپردیت لازم ہے،جب کہ اس کی کوئی تعدی بھی نہیں ہے،وہ گاڑی کو اصولوں کے مطابق چلارہاتھا؟

جواب

ڈرائیور اگر غلطی سے غیر عمدی طور پر ایکسیڈنٹ کے ذریعہ اپنی سواری کے علاوہ کسی دوسرے کو قتل کردے تو یہ قتلِ خطا ہے اور  اس کی وجہ سے کفارہ اور دیت دونوں لازم ہوں گے؛لہذا صورت ِ  مسئولہ میں بریک فیل ہونے کی وجہ سے گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور اس کی وجہ سے ایک  شخص فوت ہوگیا تو یہ شرعاً قتل خطا کے حکم میں ہے ،جس کی وجہ سے ڈرائیور پر کفارہ اور دیت دونوں لازم ہوں گے ۔

کفارے کے طور پر اس ڈرائیور کو مسلسل ساٹھ روزے رکھنے پڑیں گے۔ اگر کسی وجہ سے  مسلسل روزے نہ  رکھ سکے اور درمیان میں خلل آیا تو  از سر نو دو مہینے کے لگاتار  روزے رکھنے لازم ہوں گے،  البتہ دیت کی ادائیگی اس ڈرائیور کی "عاقلہ" کے ذمہ ہے۔ عاقلہ سے مراد وہ جماعت، تنظیم یا کمیونٹی ہے جس کے ساتھ اس ڈرائیور کا تناصر (یعنی باہمی تعاون) کا تعلق ہو، یہ دیت تین سال میں ادا کی جائے گی، سونے کی صورت میں اگر دیت ادا کی جائے تو دیت کی مقدار ایک ہزار دینار اور درہم  کے اعتبار سے دس ہزار درہم ہے، جس کا اندازہ  جدید پیمانے سے  30.618  کلوگرام چاندی یا اس کی قیمت ہے۔

  ڈرائیور بھی عاقلہ میں شامل ہے ،اور دیت تمام عاقلہ پر برابر تقسیم ہوگی۔اور جتنی دیت عاقلہ میں ہر فرد پر لازم ہوگی اتنی ہی قاتل بھی ادا کرنے کا پابند ہوگا ۔

فتح القدیر میں ہے :

"(قال: ومن قاد قطاراً فهو ضامن لما أوطأ)، فإن وطئ بعير إنساناً ضمن به القائد والدية على العاقلة؛ لأن القائد عليه حفظ القطار كالسائق وقد أمكنه ذلك وقد صار متعدياً بالتقصير فيه، والتسبب بوصف التعدي سبب للضمان، إلا أن ضمان النفس على العاقلة فيه وضمان المال في ماله (وإن كان معه سائق فالضمان عليهما)؛ لأن قائد الواحد قائد للكل، وكذا سائقه لاتصال الأزمة، وهذا إذا كان السائق في جانب من الإبل، أما إذا كان توسطها وأخذ بزمام واحد يضمن ما عطب بما هو خلفه، ويضمنان ما تلف بما بين يديه؛ لأن القائد لايقود ما خلف السائق لانفصام الزمام، والسائق يسوق ما يكون قدامه".

(کتاب الدیات،باب جنایۃ البہیمۃ  والجنایۃ علیہا،ج:10،دارالفکر)

تکملہ فتح الملہم میں ہے :

"ثم لم یذکر الفقهاء حکم السیارة لعدم وجودها في عصرهم. والظاهر أن سائق السیارة ضامن لما أتلفته في الطریق ، سواء أتلفته من القدام أو من الخلف. و وجه الفرق بینها و بین الدابة علی قول الحنفیة أن الدابة متحرکة بإرادتها، فلاتنسب نفحتها إلی راکبها، بخلاف السیارة، فإنها لاتتحرك بإرادتها ، فتنسب جمیع حرکاتها إلی سائقها، فیضمن جمیع ذلك."

(ج:2،ص:523،ادارۃ المعارف)

فتاوی شامی میں ہے :

"(وتقسم) الدية (عليهم في ثلاث سنين لا يؤخذ في كل سنة إلا درهم أو درهم وثلث ولم تزد على كل واحد من كل الدية في ثلاث سنين على أربعة) على الأصح ثم السنين بمعنى العطيات قهستاني فليحفظ(فإن لم تسع القبيلة لذلك ضم إليهم أقرب القبائل نسبا على ترتيب العصبات والقاتل) عندنا (كأحدهم ولو) القاتل (امرأة أو صبيا أو مجنونا) فيشاركهم على الصحيح زيلعي.

(قوله والقاتل عندنا كأحدهم) يعني إذا كان من أهل العطاء أما إذا لم يكن؛ فلا شيء عليه من الدية  عندنا أيضا ذكره في المبسوط وعند الشافعي لا شيء عليه مطلقا معراج."

(کتاب المعاقل ،ج:6،ص:642،سعید)

بدائع الصنائع میں ہے :

"ويدخل ‌القاتل ‌مع ‌العاقلة ويكون فيما يؤدي كأحدهم؛ لأن العاقلة تتحمل جناية وجدت منه، وضمانا وجب عليه، فكان هو أولى بالتحمل."

(کتاب الجنایات،وجوب الدیۃ،ج:7،ص:256،دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102724

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں