بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

برادری سے باہر شادی کرنے پر برادری سے بے دخل کرنا یا جرمانہ عائد کرنا


سوال

 زید نے اپنی برادری ( جماعت ) کے لیے ایک قانون بنایا ہے کہ ہماری برادری کے لوگ دوسری برادری میں شادی نہیں کرسکتے،   اور اگر کسی نے اس قانون کی خلاف ورزی کی ( یعنی اپنی برادری کو چھوڑ کر کسی دوسری برادری میں شادی کی ) تو اسے برادری ( جماعت ) سے نکال دیا جائے گا،  یا اس پر جرمانہ عائد کیا جائے گا ۔

پوچھنا یہ ہے کیا یہ قانون شرعاً درست ہے ؟

زید کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ برادری میں شادی کرنا قرآن سے ثابت ہے، کیا واقعی کوئی آیت یا متعدد آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اپنی برادری ہی میں شادی کرنی چاہیے اور دوسری برادری میں شادی نہیں کرنی چاہیے؟

برائے کرم مفصّل جواب دیکر حکمِ شرعی سے آگاہ فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ رشتہٴ نکاح کے مستحکم ہونے اور  میاں بیوی کی ازدواجی زندگی کو  خوشگوار بنانے کے لیے  شریعت مطہرہ نے شادی بیاہ کے موقع پر آپس میں مماثلت، یگانگت، برابری اور کفاءت کا اعتبار کیا ہے۔

یعنی زوجین کے درمیان ذات، دین داری، مال داری، آزادی اور پیشہ وغیرہ میں یکسانیت ہونی چاہیے؛ تاکہ نکاح کا مقصد پورا ہوسکے، کیوں کہ میاں بیوی کے درمیان مذکورہ  بالا امور  میں یکسانیت ہونے کی صورت میں قوی امید ہوتی ہے کہ دونوں کی ازدواجی زندگی خوشگوار گزرے، عموما بے جوڑ نکاح ناکامی کا شکار ہوتے ہیں، جس  کے برے اثرات میاں بیوی سے متجاوز ہو کر دونوں کے گھرانوں کو بھی متاثر کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے لڑکیوں کا  بے جوڑ نکاح کرنے سے منع فرمایا ہے۔

سنن الدار قطنيمیں ہے:

"٣٦٠١ - نا أحمد بن عيسى بن السكين البلدي، نا زكريا بن الحكم الذسعني، نا أبو المغيرة عبد القدوس بن الحجاج، نا مبشر بن عبيد، حدثني الحجاج بن أرطاة، عن عطاء، وعمرو بن دينار، عن جابر بن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تنكحوا النساء إلا الأكفاء، ولا يزوجهن إلا الأولياء، ولا مهر دون عشرة دراهم»."

( كتاب النكاح، باب المهر، ٤ / ٣٥٨، ط: مؤسسة الرسالة )

امداد الفتاوی میں ہے:

" سوال (۱۲۱۶): قدیم ۲/ ۳۵۸ - ہندوستان میں جو اقوام پٹھان راجپوت وغیرہ ہیں اُن کے یہاں سخت عار ہے کہ ایک قوم دوسرے کے یہاں نکاح کرے مثلاً قوم افغان اگر تیلی کتنا ہی امیر ہو کبھی نکاح نہیں کرتا ہے، اگر ایسا واقعہ کہیں ہو جاتا ہے، تو اسے خاندان سے گرا ہوا سمجھتے ہیں، ہاں شہروں میں جہاں آبادی پنج میل ہے مثل دہلی وغیرہ کے وہاں کے لوگ جنتے اور برادری کا کچھ خیال نہیں کرتے ہیں اور فقہ کی کتب میں لکھا ہے کہ نسب کا اعتبار سوائے عرب کے اور قوم میں نہیں ہے، کیوں کہ عجمی ضائع النسب ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جو قوم عجمی ہیں اپنے نسب پر فخر بمقابلہ دوسری قوم کرتے ہیں اور دوسرے کو اپنا برابر نہیں سمجھتے ہیں، بموجب رواج اور عرف ان میں کفاءت کا مسئلہ جاری ہوگا اور جو شخص ماں باپ کی جانب سے اشرف ہو اور ایک شخص باپ تو اس کا اچھا ہے، اور ماں ادنی خاندان کی ہو، اگر چہ نسب میں باعتبار باپ کے وہ اچھا شمار ہوگا مگر نجیب الطرفین کا غیر کفو شمار ہوگا یا نہیں؟

الجواب: في الدر المختار : باب الكفاءة وأما في العجم فتعتبر حرية وإسلاما الخ وفي رد المحتار: أفاد أن الإسلام لا يكون معتبرا في حق العرب؛ لأنهم لا يتفاخرون به إنما يتفاخرون بالنسب . الخ وفي رد المحتار ويؤخذ من هذا ان من كانت أمها علوية مثلاً وأبـوهـا عـجـمـى يكون العجمى كفوا لها وإن كان لها شرف ما؛ لأن النسب للأباء ولهذا جاز دفع الزكوة إليها فلا يعتبر التفاوت بينهما من جهة شرف الأم ولم أر من صرح بهذا والله اعلم ج:۲، ص: ۵۲۳. وفي رد المحتار : عن الفتح تحت قول الدرالمختار: فمثل حائك الخ مانصه أن الموجب هو استنقاص أهل العرف فيدور معه وعلى هذا ينبغى أن يكون الحائك كفء اللعطار بالاسكندرية لما هناك من حسن اعتبارها و عدم عدها نقصاً البتة. الخ ۵۲۷/۲.

وفي رد المحتار تحت قول الدر المختار وأما أتباع الظلمة فأخس من الكل مانصه لا شك أن المرأة لا تتغير به فى العرف إلى (قوله لأن المدار ههنا على النقص والرفعة في الدنيا جلد : ۲، ص: ۵۲۸. 

پس جب مدار عدم عار پر ہے اور اقوام مذکور میں ایک کو دوسرے سے تعلق عقد کرتے ہوئے عار ہے، پس مسئلہ کفاءت کا جاری ہوگا، اور روایت ثالثہ سے معلوم ہوا کہ ماں کا فی نفسہ اعتبار نہیں اور نیز ہمارے عرف میں ایسا زیادہ اعتبار نہیں کیا جاتا چنانچہ مشاہد ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم"

( کتاب النکاح، باب الأولياءوالأكفاء، عجم کی بعض قوموں میں کفاءت کا اعتبار، ٥ / ١٣١ - ١٣٢، ط: مکتبہ زکریا دیوبند )

ا لبتہ شریعت مطہرہ نے برادری سے باہر  نکاح کرنے کو ناجائز اور  واجب التعزیر قرار نہیں دیا ہے، یہاں تک کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی اپنی برادریوں سے باہر نکاح کیا ہے،  لہذا صورت مسئولہ میں زيد کی جانب سے اپنی برادری کے لیے شادی کے حوالہ سے سوال میں ذکر کردہ قانون بنانا شرعا نادرست ہے،  نیز برادری سے باہر نکاح کرنے والوں کو برادری سے نکالنا، یا ان پر جرمانہ عائد کرنا بھی غلط ہوگا، کیوں کہ اولاد کا نکاح کرانے کا  شرعی حق والد کو حاصل ہوتا ہے، پس اگر کوئی والد اپنی اولاد کا نکاح برادری سے باہر کرتا ہے، تو   اسے اس کام کے کرنے سے روکنے کا شرعا حق  کسی کو حاصل نہیں ہوگا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائعمیں ہے:

" وأما الثالث في بيان ما تعتبر فيه الكفاءة، فما تعتبر فيه الكفاءة أشياء.

منها النسب، والأصل فيه قول النبي

- صلى الله عليه وسلم - «قريش بعضهم أكفاء لبعض، والعرب بعضهم أكفاء لبعض، حي بحي، وقبيلة بقبيلة، والموالي بعضهم أكفاء لبعض، رجل برجل» ؛ لأن التفاخر، والتعيير يقعان بالأنساب، فتلحق النقيصة بدناءة النسب، فتعتبر فيه الكفاءة، فقريش بعضهم أكفاء لبعض على اختلاف قبائلهم حتى يكون القرشي الذي ليس بهاشمي كالتيمي، والأموي والعدوي، ونحو ذلك كفئا للهاشمي لقوله - صلى الله عليه وسلم - «قريش بعضهم أكفاء لبعض» ، وقريش تشتمل على بني هاشم، والعرب بعضهم أكفاء لبعض بالنص، ولا تكون العرب كفئا لقريش لفضيلة قريش على سائر العرب، ولذلك اختصت الإمامة بهم قال النبي: - صلى الله عليه وسلم - «الأئمة من قريش» بخلاف القرشي أنه يصلح كفئا للهاشمي، وإن كان للهاشمي من الفضيلة ما ليس للقرشي لكن الشرع أسقط اعتبار تلك الفضيلة في باب النكاح عرفنا ذلك بفعل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وإجماع الصحابة - رضي الله عنهم -، فإنه روي أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - زوج ابنته من عثمان - رضي الله عنه - وكان أمويا لا هاشميا، وزوج علي - رضي الله عنه - ابنته من عمر - رضي الله عنه - ولم يكن هاشميا بل عدويا، فدل أن الكفاءة في قريش لا تختص ببطن دون بطن."

( كتاب النكاح، فصل بيان ما تعتبر فيه الكفاءة، ٢ / ٣١٨ - ٣١٩، ط: دار الكتب العلمية بيروت )

البحر الرائق شرح كنز الدقائقمیں ہے:

"والحاصل: أن النسب المعتبر هنا خاص بالعرب، وأما العجم فلا يعتبر في حقهم ولذا كان بعضهم كفؤا لبعض."

( كتاب النكاح، باب الأولياء والأكفاء، فصل في الأكفاء في النكاح، ٣ / ١٤١، ط: دار الكتاب الإسلامي)

منحة الخالق بهامش الكنزمیں ہے:

" حاصله: أن النسب معتبر في العرب فقط وإسلام الأب والجد في العجم فقط والجزية في العرب والعجم، وكذا إسلام نفس الزوج."

( كتاب النكاح، ٣ / ١٤١، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144406100898

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں