بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

باکسنگ میں کسی کا قتل ہوجانا


سوال

آج کل جو باکسنگ ،فری فائٹنگ وغیرہ کے جو کھیل ہیں، اس میں بسا اوقات مکا غلط لگنے کی وجہ سے آدمی کی جان جاتی ہے، ازروئے شریعت یہ قتل کی کون سی قسم میں داخل ہوگا؟ 

جواب

 موجودہ دور میں باکسنگ( مُکابازی) کے  نام سے جو مقابلے منعقد ہوتے ہیں، چوں کہ ان مقابلوں میں مدمقابل کو شدید سے شدید تکلیف اور جسمانی اذیت پہنچانے کو کھیل کاحصہ اور جائز سمجھاجاتاہے،نیز فریقین میں سےکسی کے شدید نقصان کی صورت میں بھی دوسرے کو موردالزام نہیں ٹھہرایاجاسکتا،ان مقابلوں اورکھیلوں میں حصے لینے والے جسمانی اعضاء سے محروم نیز بسااوقات موت سے بھی دوچارہوتے ہیں، لہذا باکسنگ کاکھیل اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت اور نقصان میں ڈالنے کے مترادف ہے، نیز اس کھیل میں دیگر کئی شرعی مفاسد بھی پائے جاتے ہیں، مثلاً: ٹی وی پر تشہیر،غیرشرعی لباس پہننا وغیرہ ۔اس لیے شریعت میں اس کھیل کی اجازت نہیں ہے۔

البتہ اگر ان کھیلوں کا انعقاد ہو اور باہمی رضامندی سے کی جانے والی لڑائیوں (باکسنگ وغیرہ)میں اگر ایک فریق انتقال کرجائے تو یہ قتلِ خطا کے زمرے میں آئےگا اور مارنے والا گناہ گار بھی ہوگا اور اس پر دیت وکفارہ دونوں لازم ہوں گے، باقی اگر مقتول کے ورثاء دیت معاف کرنا چاہیں تو یہ ان کاحق ہے، لیکن کفارے کے دو ماہ کے مسلسل روزے پھر بھی لازم ہوں گے ۔

قرآن کریم میں ہے:

﴿ وَلاَ تُلْقُوْا بِأیْدِیْکُمْ اِلى التَّهْلُکَةِ ﴾ (البقرة:195)

ترجمہ: اور تم اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں مت ڈالو۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (6 / 530):

"( و ) الثالث ( خطأ وهو ) نوعان لأنه إما خطأ في ظن الفاعل ك ( أن يرمي شخصًا ظنه صيدًا أو حربيًّا ) أو مرتدًّا ( فإذا هو مسلم أو ) خطأ في نفس الفعل كأن يرمي (غرضًا ) أو صيدًا ( فأصاب آدميًّا ) أو رمى غرضًا فأصابه ثم رجع عنه أو تجاوز عنه إلى ما وراءه فأصاب رجلًا أو قصد رجلًا فأصاب غيره أو أراد يد رجل فأصاب عنق غيره ولو عنقه فعمد قطعًا أو أراد رجلًا فأصاب حائطًا ثم رجع السهم فأصاب الرجل فهو خطأ؛ لأنه أخطأ في إصابة الحائط و رجوعه سبب آخر و الحكم يضاف لآخر أسبابه، ابن كمال عن المحيط. قال: و كذا لو سقط من يده خشبة أو لبنة فقتل رجلًا يتحقق الخطأ في الفعل و لا قصد فيه، فكلام صدر الشريعة فيه ما فيه، وفي الوهبانية: و قاصد شخص إن أصاب خلافه فذا خطأ و القتل فيه معذر و قاصد شخص حالة النوم إن يمن فيقتص إن أبقى دمًا منه ينهر ( و ) الرابع ( ما جرى مجراه ) مجرى الخطأ ( كنائم انقلب على رجل فقتله ) لأنه معذور كالمخطىء ( وموجبه ) أي موجب هذا النوع من الفعل وهو الخطأ وما جرى مجراه ( الكفارة والدية على العاقلة ) والإثم دون إثم القتل إذا الكفارة تؤذن بالإثم لترك العزيمة."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200491

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں