بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

باکسنگ boxing سیکھنا سکھانا اور اس کو ذریعہ معاش بنانا


سوال

1: باکسنگ کھیل کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

2:  اس کے لیے  اکیڈمی کھول کر سکھانا اور اس کی فیس لینا حلال ہے ؟

3:  کیا باکسنگ کا پلئیر بن کر ایک ادارے کی نمائندگی کرنا، اس سے تنخواہ لینا اور مراعات لینا ٹھیک ہے؟

کیوں  کہ باکسنگ میں اصل یہی ہے کہ اس میں چہرے کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے اور چہرے پر مار کر ہی حریف کو شکست پر مجبور کیا  جاتا ہے، جب کہ حدیث مبارکہ میں چہرے پر مارنے سے منع کیا گیا ہے اور  باکسنگ کے ملکی اور مقامی مقابلے میں عام طور پر حریف مسلمان کھلاڑی ہوتا ہے،  ایک مسلمان کو صرف جیت، مڈل، مراعات  اور پیسوں کی خاطر چہرے پر مار کر لہو لہان کرنا کیسا ہے؟

جواب

1،2:   ایسا کھیل یا ورزش جس میں  کوئی دینی یا دنیاوی  منفعتِ مقصودہ ہو، اور اس میں کسی قسم کے خلاف شرع امور بھی نہ پائیں جائیں  تو ایسا کھیل یا ورزش جائز ہے،   بشرط یہ کہ اس میں   اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔ لہذا  باکسنگ کے کھیل سے اگر  جسمانی قوت حاصل کرنا ، اپنی جان  کے دفاع کا فن سیکھنا یا  اعلاء کلمۃ اللہ  کے لیے دین اسلام کے  دشمنوں  سے مقابلہ کی تیاری  مقصود ہو   تو    فی نفسہ باکسنگ سیکھنا یا سکھانا جائز ہے، البتہ  اس میں درج ذیل چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:

  1.  اپنی جان کو یا کسی دوسرے انسان  کو ہرگز  تکلیف نہ پہنچائی جائے۔
  2. قصداً کسی کے چہرہ پر نہ مارا جائے، بلکہ مشق کے لیے  مکّے بازی کے بیگ (boxing punching bag) وغیرہ کا   استعمال کیا جائے۔
  3. ستر کے ڈھانپنے کا مکمل اہتمام ہو۔
  4. اس کے علاوہ کسی بھی دوسرے غیر شرعی امر کا ارتکاب نہ کیا جائے اور نہ  اس میں منہمک ہوکر شرعی  امور میں کوتاہی ہو۔

اگر ان  مذکورہ شرائط   میں سے کسی بھی شرط کی رعایت نہیں  کی گئی تو باکسنگ سیکھنا اور سکھانا جائز نہیں ہوگا۔

3: موجودہ دور میں باکسنگ( مُکابازی) کے  نام سے جو مقابلے منعقد ہوتے ہیں، چوں کہ ان مقابلوں میں مدمقابل کو شدید سے شدید تکلیف اور جسمانی اذیت پہنچانے کو کھیل کاحصہ اور جائز سمجھاجاتاہے، اور خصوصیت کے ساتھ چہرہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جب کہ ان دونوں چیزوں سے احادیث مبارکہ میں منع کیا گیا ہے، نیز مروجہ مقابلوں میں فریقین میں سےکسی کے شدید نقصان کی صورت میں بھی دوسرے کو موردالزام نہیں ٹھہرایاجاسکتا،ان مقابلوں اورکھیلوں میں حصے لینے والے جسمانی اعضاء سے محروم نیز بسااوقات موت سے بھی دوچارہوتے ہیں، لہذا باکسنگ کاکھیل اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت اور نقصان میں ڈالنے کے مترادف ہے، نیز اس میں دیگر کئی شرعی مفاسد بھی پائے جاتے ہیں، مثلاً: ٹی وی پر تشہیر،غیرشرعی لباس پہننا وغیرہ، لہذا باگسنگ کا پلئیر بن کسی ادارے کی نمائندگی کرنا اور اس طرح کے مروجہ مقابلوں میں حصہ لینا اور اس پر تنخواہ ومراعات لینا جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے۔

مجمع الأنهر  مىں هے:

"وفي شرح الكافي لا يجوز الإجارة على شيء من الغناء والنوح، والمزامير، والطبل أو شيء من اللهو ولا على قراءة الشعر ولا أجر في ذلك. وفي الولوالجي: رجل استأجر رجلا ليضرب له الطبل إن كان للهو لا يجوز، وإن كان للغزو أو القافلة أو العرس يجوز؛ لأنه مباح فيها ."

(2/ 384، كتاب الإجارة، باب إجارة  الفاسدة، ط: دارأحياء التراث  العربي)

  تکملۃ فتح الملہم شرح صحیح المسلم میں ہے:

"فالضابط في هذا ... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام اور مكروه تحريماً، ... وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة ... كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه."

( کتاب الشعر، باب تحریم اللعب بالنردشیر، 381 / 4، ط: داراحیاء التراث العربی)

الفقه الإسلامي وأدلته ميں هے:

وتحريش الديكة على بعضها، ودفع المواشي إلى التناطح ومصارعة الثيران والمصارعة الحرة والملاكمة ونحوها حرام، لما تحدثه من أضرار في حياة الإنسان أو الحيوان، فإن لم يكن في الملاكمة أو المصارعة ضرر بأحد الطرفين كانت مباحة، وكذلك تباح إن كان فيها تعويد الإنسان على القوة والقتال والدفاع عن النفس."

(4/ 216، الباب السابع الحظر والإباحة، رابعا: اللهو، ط: دارالفكر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411100852

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں